امن کے خواہاں لوگوں کو متحرک ہونا ہوگا: تجزیہ کار

  • بہجت جیلانی
پاکستان بھارت کے حوالے سے، تجزیہ کاروں نے کہا کہ، ’بجائے میڈیا ’ہائیپ’ پیدا کرنے کے، بہتر طریقہٴکار یہ ہوگا کہ معاملات کو ہاتھ سے نہ نکلنے دیا جائے، اور تناؤ کو ختم کرنے والے ’مکینزم‘ زیادہ سے زیادہ ہوں، تاکہ جب بھی کوئی مشکل معاملہ درپیش ہو فوری طور پر دھیان حل کی طرف جائے‘
پاکستان اور بھارت سے تعلق رکھنے والے نامور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ منفی پروپیگنڈہ کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے، دونوں ملکوں کے کچھ عناصر اور غیر ریاستی گروپ اور تنظیمیں، بقول اُن کے، اپنے خودغرضانہ مفادات پر مبنی ایجنڈا آگے بڑھاتے ہیں، جس کے باعث دونوں ملکوں کے مسائل حل نہیں ہو پاتے اور ماحول تناؤ کا شکار رہتا ہے۔

منگل کے روز ’وائس آف امریکہ‘ کے پروگرام ’آج کے موضوع‘ میں گفتگو کرتے ہوئے، دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل اطہر عباس کا کہنا تھا کہ اس قسم کے عناصر اور گروپ دونوں ملکوں میں ہیں، جن کے مفاد میں یہ نہیں ہے کہ دونوں ہمسایہ ملک مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالیں۔

اُنھوں نے کہا کہ بجائے میڈیا ’ہائیپ’ پیدا کرنے کے، بہتر طریقہٴکار یہ ہوگا کہ معاملات کو ہاتھ سے نہ نکلنے دیا جائے، اور تناؤ کو ختم کرنے والے ’مکینزم‘ زیادہ سے زیادہ ہوں ، تاکہ جب بھی کوئی مشکل معاملہ درپیش ہو فوری طور پر دھیان حل کی طرف جائے۔

نامور بھارتی تجزیہ کار، ڈاکٹر کمار مترا چنائے سے پوچھا گیا کہ جب عوامی سطح پر امن و امان کو برقرار رکھنے کی شدید خواہش موجود ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ اختلافات بھی شدت کے ساتھ جاری و ساری ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ کمیونسٹوں کو چھوڑ کر، بھارت میں بھی مفاد پرست منفی سوچ رکھنے والےلوگ زیادہ ہیں، جو دونوں ملکوں کے درمیان قربت پیدا ہوتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے۔

میڈیا سے متعلق سوال پر، مترا چنائے نے کہا کہ میڈیا بکا ہوا ہے، جس کے مالکان سیاست کرتے ہیں۔اُن کے بقول، وہ سارے لوگ جو امن چاہتے ہیں، اُن کو متحرک ہونا ہوگا۔

اُنھوں نے کہا کہ ڈی جی ملٹری آپریشنز کی تسلسل کے ساتھ ملاقاتیں ہونی چاہئیں اور ہاٹ لائن کا زیادہ استعمال کیا جانا چاہیئے، تاکہ میڈیا پر منفی باتیں آنے سے پہلے ہی وضاحتی بیانات سامنے آجائیں۔

’ٹریک ٹو سفارت کاری‘ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں، میجر جنرل اطہر عباس کا کہنا تھا کہ اس کے اچھے نتائج مرتب ہو رہے ہیں، اور وہ باتیں جن پر عام سفارت کاری میں بات چیت ممکن نہیں، ان پر سرجوڑ کر باتیں ہوتی ہیں اور اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششیں ہوتی ہیں، جو بات خوش آئند ہے۔

تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے:

Your browser doesn’t support HTML5

بھارت پاکستان تعلقات، نامور تجزیہ کاروں سے بات چیت