امریکہ میں پاکستان کے نئے سفیر اعزاز چوہدری نے کہا ہے کہ افغانستان میں عسکری نہیں بلکہ سیاسی حل درکار ہے، جس کے لئے پاکستان اور امریکہ مل کر کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
یہ بات انہوں نے واشنگٹن میں پاکستان کے سفارتخانے میں اپنی پہلی پریس بریفنگ کے دوران کہی۔
ایک سوال کے جواب میں اعزاز چوہدری نے کہا کہ نئی انتظامیہ کی خطے کے لئے جب بھی پالیسی واضح ہوگی تو پاکستان کی طرف سے یہ پیغام بالکل واضح ہے کہ ہم مل کر افغانستان میں دیرپا امن کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ افغانستان میں امن پاکستان کے استحکام کے لئے ضروری ہے۔
تاہم، انہوں نے زور دیا کہ سرحد کے دونوں اطراف دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو روکنے کے لئے پاک افغان سرحد کی نگرانی ضروری ہے، جس کے لئے پاکستان اور افغان حکام کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستانی سفیر نے کہا ہے کہ پاکستان میں اس بارے میں تشویش پائی جاتی ہے کہ کچھ دہشت گرد عناصر افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں؛ اور افغانستان پر زور دیا کہ وہ اپنے ملک سے ایسے عناصر کو نکال باہر کرے۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں اعزاز چوہدری نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بہت پرانے ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ فون پر جو گفتگو ہوئی اس سے بھی یہ اشارے ملتے ہیں کہ نئی انتظامیہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہاں ہے۔
'وائس آف امریکہ' کے سوال کے جواب میں انہوں نے واضح کیا کہ نئی انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کو ڈاکٹر شکیل آفریدی کے معاملے پر کوئی پیغام نہیں دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ '’اس معاملے پر ہمارا اپنا نقطہ نظر ہے اور امریکہ کا اپنا‘'۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی ایبٹ آباد میں القاعدہ کے رہنما اوسامہ بن لادن کی موجودگی کا پتہ لگانے کے سلسلے میں امریکہ کی مدد کرنے کے جرم کی پاداش میں پاکستان میں جیل کاٹ رہے ہیں۔ امریکی کانگرس گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان سے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کا مطالبہ کر چکی ہے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں کے بارے میں گستاخانہ مواد بلاک کرنے کے بارے میں کئے جانے والے اقدامات کے بارے میں کہا کہ حکومت اس بارے میں کوئی حکمت عملی وضع کرنا چاہتی ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ ان اقدامات کی آڑ میں حکومت ایسے بلاگرز اور عناصر پر بھی سختی کرنا چاہتی ہے جو وزیر اعظم، اعلیٰ شخصیات اور اداروں پر تنقید کرتے ہیں یا ان کی بد عنوانیوں پر سے پردہ اٹھاتے ہیں، تو انہوں نے جوب دیا کہ وہ ایسے بلاگرز کو نہیں جانتے۔