ایئرایشیا طیارے کے مزید مسافروں کی لاشیں برآمد

فضائی میزبان کی ملنے والی لاش ورثا کے حوالے کر دی گئی۔

امریکہ کے ساتویں بحری بیڑے نے جمعہ کو اعلان کیا اس نے طیارے کی تلاش والے علاقے میں اپنا ایک اور بحری جہاز روانہ کر دیا ہے۔ یہاں یو ایس ایس سمپسن پہلے ہی سرگرمیوں میں معاونت فراہم کر رہا ہے۔

ایئرایشیا کے سمندر میں گر کر تباہ ہونے والے طیارے کے ملنے اور مسافروں کی لاشوں کی تلاش کو تیز کرنے کے لیے عہدیدار زیر آب سراغ لگانے والے آلات استعمال کر رہے ہیں۔

حکام کے مطابق جمعہ کو کچھ ملبہ اور مزید آٹھ مسافروں کی لاشیں برآمد ہوئیں جس کے بعد اب تک برآمد ہونے والی لاشوں کی تعداد 16 ہو گئی ہے۔

گزشتہ اتوار انڈونیشیا سے سنگاپور جاتے ہوئے ایئر ایشیا کا طیارہ اچانک لاپتا ہو گیا تھا جس کی چند باقیات منگل کو جزیرہ بورینو کے قریب بحیرہ جاوا سے ملی تھیں۔

جہاز پر عملے سمیت 162 افراد سوار تھے جن میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچا۔

اتوار ہی سے جہاز اور اس کے مسافروں کی تلاش کا عمل شروع ہو گیا تھا جس میں اب مختلف ملک حصہ لے رہے ہیں۔ خراب موسم کی وجہ سے یہ سرگرمیاں کئی بار موخر بھی ہوئی ہیں۔

محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ شدید بارشوں کا سلسلہ آئندہ اتوار تک جاری رہے گا۔

امریکہ کے ساتویں بحری بیڑے نے جمعہ کو اعلان کیا اس نے طیارے کی تلاش والے علاقے میں اپنا ایک اور بحری جہاز روانہ کر دیا ہے۔ یہاں یو ایس ایس سمپسن پہلے ہی سرگرمیوں میں معاونت فراہم کر رہا ہے۔

یو ایس ایس فورٹ ورتھ کو تاحال تلاش کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا فرض نہیں سونپا گیا لیکن یہ جہاز انڈونیشیا کی حکومت کی درخواست پر کارروائیوں میں شریک ہونے کے لیے وہاں موجود رہے گا۔

مشرقی جاوا میں حکام نے جمعرات کو بتایا تھا کہ اب تک ملنے والی لاشوں میں سے ایک کی شناخت ہو سکی ہے اور وہ خاتون فضائی میزبان کی لاش تھی۔

حیاتی لطفیاح حامد کی شناخت ان کی انگلیوں کے نشانات سے کی گئی اور پھر لاش کو ورثا کے حوالے کر دیا گیا۔

توقع کی جارہی ہے کہ بہت سے افراد کی لاشیں جہاز کے ڈھانچے میں ہی موجود ہو سکتی ہیں کیونکہ بعض عہدیدار یہ قیاس آرائی کر رہے ہیں کہ جہاز کے ماہر پائلٹ نے اسے سمندر پر اتارا ہو گا جس کے بعد یہ ڈوبا ہو گیا۔

تاحال جہاز کے ڈھانچے کا پتا نہیں چلایا جاسکا ہے۔

لاپتا ہونے سے قبل پائلٹ نے ایئر ٹریفک کنٹرولر سے جہاز کو مقرر بلندی سے مزید اوپر لے جانے کی اجازت طلب کی تھی تاکہ وہ خراب موسم سے بچ سکے۔ لیکن انھیں یہ کہہ کر اجازت نہیں دی گئی کہ اسی علاقے میں کئی اور جہاز محو پرواز تھے۔