اسلام آباد چڑیا گھر کے بیمار ہاتھی کاون کو کمبوڈیا بھیجنے کا فیصلہ

کاون کئی سالوں سے بیمار اور اسلام آباد کے چڑیا گھر میں نامساعد حالات میں موجود ہے۔

اسلام آباد کے چڑیا گھر میں بیمار ہاتھی کاون کو کمبوڈیا بھجوانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ کاون کو بھجوانے کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ہفتے کو مرغزار چڑیا گھر سے جانوروں کی محفوظ مقام پر منتقلی سے متعلق عمل درآمد کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ بتائیں کاون ہاتھی اور دیگر جانوروں کی منتقلی کے لیے کیا کیا گیا؟ جس پر وائلڈ لائف حکام نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کاون کو کمبوڈیا منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے صرف شپنگ کا انتظام ہونا باقی ہے جب کہ چڑیا گھر میں موجود مگرمچھ کو محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ انسان کی طاقت کمزور کو قید کرنا نہیں بلکہ اس کی حفاظت کرنا ہے۔ ایک جانور ملتان جیسے گرم موسم میں پیدا ہو اور اسے الاسکا بھیج دیا جائے تو وہ کیسے زندہ رہ سکتا ہے؟

چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ حکومتِ پاکستان نے عدالتی فیصلہ تسلیم کیا ہے۔ اخبارات میں دیکھا وزیراعظم خود اس معاملے میں دلچسپی لے رہے ہیں جو لائق تحسین ہے۔ حکومت پاکستان جانوروں کے حقوق کے معاملے میں دنیا پر سبقت لے رہی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چڑیا گھر بادشاہ بنایا کرتے تھے جہاں جانوروں کو قید کر کے وہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے، انسان کی طاقت کمزور کو قید کرنا نہیں، اس کی حفاظت کرنا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مگر مچھ کے بارے استفسار کیا تو سیکرٹری ماحولیات نے آگاہ کیا کہ مگر مچھ کو آج چڑیا گھر سے محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مگر مچھ قدرتی طور پر تو سندھ میں کہیں ساحلی علاقوں پر ہونا چاہیے، جانور اپنی قدرتی آب و ہوا میں ہی زندہ رہ سکتے ہیں ایک جانور ملتان جیسے گرم موسم میں پیدا ہوا اسے الاسکا بھیج دیا جائے تو وہ کیسے زندہ رہے گا؟

عدالت نے کیس نمٹاتے ہوئے قرار دیا کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

کاون عرصہ دراز سے بیمار ہے۔ (فائل فوٹو)

کاون سے متعلق عدالتی فیصلہ

رواں سال مئی میں عدالت نے نایاب ہاتھی کاون سمیت تمام جانوروں کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔ عدالتی فیصلے میں کہا تھا کہ مرغزار چڑیا گھر کے واحد ہاتھی کاون کے ساتھ ظالمانہ سلوک روا رکھا گیا جس کے نتیجے میں وہ گزشتہ تین دہائیوں سے ناقابل تصور تکالیف سے گزر رہا ہے۔

بورڈ آف وائلڈ لائف منیجمنٹ کے چیئرمین کو وائلڈ لائف آرڈیننس 1979 کے تحت انتظامات کرنے کی ہدایت کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ کاون کو 30 روز میں مناسب جگہ منتقل کرنے کے لیے سری لنکا کے ہائی کمشنر سے مشورہ کیا جائے۔ عدالت نے کہا تھا کہ یہ بورڈ متعلقہ ماہرین اور بین الاقوامی اداروں یا تنظمیوں کی مدد بھی حاصل کرسکتا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ بورڈ، عدالت کے فیصلے کی تقل موصول ہونے کے بعد 60 روز میں دیگر جانوروں کو ان کے متعلقہ مقامات پر منتقل کرنے کا پابند ہوگا۔

بورڈ آف وائلڈ لائف مینجمنٹ کے چیئرمین کی سربراہی میں بورڈ کو چڑیا گھر کا انتظام سنبھالنے کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسلام آباد کے چیف کمشنر اور ایم سی آئی جانوروں کو منتقل کرنے تک بورڈ سے تعاون کریں گے۔ تمام جانوروں کی محفوظ مقامات میں منتقلی تک ان کی دیکھ بھال کے لیے وزارت موسمیاتی تبدیلی اور بورڈ کے اراکین مشترکہ طور پر ذمہ دار ہوں گے۔

کاون کا مسئلہ

کاون کو 1985 میں سری لنکا نے حکومت پاکستان کو تحفے میں دیا تھا۔ اس وقت اس کی عمر چھ سال تھی تاہم 30 سے زائد برس تک اسے نامساعد حالات میں رکھنے سے متعلق شکایات موصول ہو رہی تھیں۔

کاون کی حالت اس وقت خراب ہو چکی ہے اور وہ چلنے سے بھی قاصر ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق اب کاون سفر کے بھی قابل نہیں ہے۔

کاون کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی اور ملکی سطح پر مہم چلائی جاتی رہی ہے۔ اس مہم میں امریکی گلوکارہ شیر بھی پیش پیش رہی ہیں اور انہوں نے مئی میں ٹوئٹر پر کاون کا معاملہ اُجاگر کیا تھا جس کے بعد عدالت نے فیصلہ جاری کیا تھا۔

کاون کی حالت کا علم کیسے ہوا؟

سال 2015 میں امریکی نژاد پاکستانی خاتون ثمر خان نے سب سے پہلے کاون کا معاملہ اٹھایا تھا اور مرغزار چڑیا گھر میں کاون کی حالت دیکھنے کے بعد آن لائن پٹیشن کے ذریعے اس کی حالت سے متعلق آگاہ کیا تھا۔

اس کے بعد آن لائن پٹیشن پر چار لاکھ کے قریب افراد نے دستخط کیے جب کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں باقاعدہ رٹ بھی دائر کی گئی۔

کاون کے لیے ساتھی کے طور پر مادہ ہتھنی بھی موجود تھی لیکن اس کی موت کے بعد کاون کی حالت مزید خراب ہوتی چلی گئی۔ اس وقت کاون مرغزار چڑیا گھر میں موجود ہے۔