ایڈزکی روک تھام اور معاشرتی تعصب

)

ایڈز سے بچاؤ ا ور اس کے علاج سے منسلک مسائل کے علاوہ اس مسئلے سے کچھ سماجی مسائل بھی جڑے ہیں، جن میں اس مرض میں مبتلا افراد سے معاشرے کا تعصبانہ رویہ بھی ہے۔

آج دنیا بھر میں ایڈز کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ یہ دن اس مہلک مرض کے علاج کے لیئے جاری کوششوں اور اس پر قابو پانے کے عزم کے اظہار کے لیے منایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ دن ایڈز سے منسلک سماجی مسائل پر بھی توجہ مبذول کراتا ہے

سائنس دانوں نے گزشتہ ہفتے یہ اعلان کیا ہے کہ ایک خاص دوا بننے سے ہم جنس پرستوں میں HIV سے بچاؤ کے لیے مدافعت پیدا ہوئی ہے۔

ڈاکٹر اینتھونی فوچی 26 سال سے وبائی امراض سے بچاؤ اور روک تھام کے امریکی ادارے سے وابستہ ہیں اور تقریباً اتنے ہی عرصے سے ایڈز کا مرض دنیا بھر کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کامیابی کا راستہ بہت طویل ہے مگر ہم درست سمت میں جا رہے ہیں۔

HIV میں مبتلا تقریباً 57 لاکھ مریض، جنوبی افریقہ کو دنیا بھر میں ایڈز سے متاثرہ افراد کا سب سے بڑا ملک بناتے ہیں۔وہاں کے صدر جیکب زوما نے ایک سال پہلے HIV/AIDS کے خلاف بھرپور مہم کا آغاز کیا تھا۔ یہ مہم ایڈز سے بچاؤ اور اس کے علاج کے لیے کی جانے والی کوششوں میں ایک اہم قدم تھی ۔ جس کے ذریعے جنوبی افریقہ کے تمام باشندوں کا HIV ٹیسٹ لیا جانا تھا ، تاکہ اس ملک میں ہر کسی یہ معلوم ہوسکے کہ وہ HIV سے محفوظ ہیں یا نہیں۔

مارک ہے وڈ سماجی کارکن ہیں اور جنوبی افریکہ کی نیشنل ایڈز کونسل کے ڈپٹی چیرمین ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جنوبی افریقہ میں بہت سے لوگ اس وائرس میں مبتلا ہیں۔ اور HIV اس ملک کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ان کے مطابق اس سال 40 لاکھ افراد کو ٹیسٹ کیا گیا ، جس کے بعد علاج فراہم کیے جانے والے لوگوں کی تعداد دوگنی ہو گئی ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے ایڈز کی ریجنل ڈاریکٹر شیلا تلو کہتی ہیں کہ گزشتہ ایک دہائی میں برِاعظم افریقہ میں ایڈز کے مریضوں اور ان کی اموات میں 25 فیصد تک کمی آئی ہے۔ مگر ان کا یہ بھی کہناہے کہ اس پر مطمئن ہوکر بیٹھ نہیں جانا چاہیے۔ کیونکہ اس مرض سے بچاؤ کی کوششیں مسلسل جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔

HIV سے بچاوا ور اس کے علاج سے منسلک مسائل کے علاوہ اس مسئلے سے کچھ سماجی مسائل بھی جڑے ہیں، جن میں اس مرض میں مبتلا افراد سے معاشرے کا تعصبانہ رویہ بھی شامل ہے۔

تھائی لینڈ میں ایک بدھ مٹھ یعنی مندر HIV/AIDS میں مبتلا مریضوں کی پناہ گاہ ہے۔جو مریض وہاں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، بدھ عقیدے کے تحت انہیں جلا دیا جاتا ہے۔ مگر بعض خاندان اپنے رشتہ داروں کی استیاں(راکھ) لینے سے انکار کرتے ہیں جو وہیں پڑی رہتی ہیں۔ اس مٹھ کے مٹھا دیش یعنی پجاری الونگ کوٹ دیکا پانیو کہتے ہیں کہ ہمارے لوگ رحم دل ہیں۔ وہ کچھ رقم دے دیتے ہیں،کھانا دیتے ہیں، کچھ کپڑے اور کچھ دوا بھی دیتے ہیں مگر کوئی بھی ہمارے مٹھ میں نہیں آتا کیونکہ وہ اس بیماری سے خوفزدہ ہیں۔

دکھ کی بات یہ ہے کہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے معلوماتی مہم چلائے جانے کے باوجود دنیا بھر میں ایڈز سے متاثرہ افراد کے خلاف معاشرتی تعصب بدستور موجود ہے۔ کیونکہ آج بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد اسے چھونے سے پھیلنے والی وبا سمجھتے ہیں۔

پاکستان میں مختلف جائزوں کے مطابق HIV سے متاثرہ افراد کی تعداد 45ہزار سے دو لاکھ دس ہزار کے درمیان بتائی جاتی ہے، مگر پاکستانی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق یہ تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ پاکستان کے لیے جنوبی ایشیاء میں بھارت کے بعد ایڈز سے متاثرہ افراد کا دوسرا بڑا ملک ہونے کا خطرہ بڑھ رہاہے۔