امریکہ کے شہر میناپولس میں ایک افریقی امریکی، جارج فلائیڈ کی موت واقع ہونا جب ایک سفید فام پولیس افسر اسے ہتھکڑی لگا رہا تھا؛ ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور ہنگامے جاری رہے، جس کے بعد پولیس اہلکار ڈیرک شوون کو گرفتار کرکے اس پر قتل کی فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔
یہ صورت حال ایک ایسے وقت بن رہی ہے جب ایک جانب کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے سبب بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور عام آدمی اپنے آپ کو سخت دباؤ میں محسوس کر رہا ہے؛ تو دوسری جانب ملک کے صدارتی انتخابات بالکل سر پر ہیں۔ ملک کو بتدریج کھولا جا رہا ہے، لیکن ماہرین کے بقول، اقتصادی بحالی ابھی بہت دور ہے۔
اس بارے میں ممتاز تجزیہ کار ڈاکٹر زبیر اقبال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب کسی ملک میں معیشت کی رفتار سست ہو جاتی ہے، بیروزگاری بڑھ جاتی ہے اور لوگوں کو اپنا مستقبل غیر یقینی نظر آنے لگتا ہے، تو ان میں مایوسی بڑھنے لگتی ہے اور وہ ہر بات پر بھڑک اٹھنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ اور اِس وقت بد قسمتی سے کرونا کے سبب یہ صورت حال ساری دنیا میں پائی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسوقت یہی صورت حال امریکہ میں بھی ہے، جب کہ میناپولس اور جارجیا جیسے واقعات جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں؛ اور یقینی طور پر اس کے سیاسی اثرات مرتب ہوں گے، خاص طور سے حکمراں جماعت کے لئے اسکے اثرات زیادہ سخت ہوتے ہیں، چونکہ عام لوگوں میں حمایت کا عنصر متاثر ہوتا ہے۔
ڈاکٹر زبیر اقبال کے بقول، ایسے موقعوں پر ذمہ دار قوتوں کو مداخلت کرنی چاہئیے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وفاقی اور ریاستی حکومتیں مل جل کر اسے حل کرتی ہیں یا اس پر بھی سیاست شروع ہو جائے گی، جو دیکھنا ابھی باقی ہے۔
اس سوال کے جواب میں آیا صدر اپنے طور پر میناپولس یا کسی اور شہر یا ریاست میں نیشنل گارڈز بھیج سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ آئینی اور قانونی طور پر یہ درخواست ریاست کے گورنر کی طرف سے آنی چاہئے۔
ایک اور ممتاز تجزیہ کار اور پولیٹیکٹ نامی ادارے کے چیف انالسٹ، عارف انصار کا بھی وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے یہی کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن نے کم آمدنی والے لوگوں کو زیادہ معاشی اور ذہنی دباؤ میں مبتلا کر دیا ہے اور جب نسلی کشیدگی بھی پائی جاتی ہو اور منیاپولس اور جارجیا جیسے واقعات بھی رونما ہوں تو ہنگامہ آرائی بعید از امکان نہیں اور اس وقت معاملات کو انتہائی ذمہ داری سے سنبھالنے کی ضرورت ہے۔
انکا کہنا تھا کہ یہ وقت کسی بھی جانب سے ایسے واقعات پر نہ سیاست کرنے کا ہے اور نہ ایسے بیانات دینے کا جو کسی بھی فریق کے جذبات کو بھڑکائیں، بلکہ ذمہ داری اور سمجھداری سے معاملات سے نمٹنے کے لئے اقدامات کا متقاضی ہے۔