ترکی میں حکومت کے خلاف فوجیوں کے ایک گروپ کی ناکام بغاوت کے بعد ترکی اور امریکہ کے تعلقات میں کچھ تناؤ دیکھا جا رہا ہے جس کی وجہ سے صدر رجب طیب اردوان کی طرف سے امریکہ میں مقیم فتح اللہ گولن کی حوالگی اور انجرلک میں امریکی اتحادی افواج کو دیے گئے فضائی اڈے کو بجلی کی فراہمی منقطع کیا جانا بتایا جاتا ہے۔
75 سالہ مذہبی رہنما فتح اللہ گولن نوے کی دہائی میں جلاوطنی اختیار کر کے امریکہ منتقل ہو گئے تھے۔ صدر اردوان نے حکومت کے خلاف ہونے والی بغاوت کا الزام ان پر عائد کیا ہے لیکن گولن نے اسے یکسر مسترد کر دیا ہے۔
ترک صدر کا کہنا تھا کہ امریکہ فتح اللہ گولن کو گرفتار کرے یا پھر ترکی کے حوالے کرے۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اپنے ترک ہم منصب میوت کاوسغلو کو ہفتہ کو دیر گئے فون کیا اور محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان کے مطابق انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ بغاوت کی منصوبہ بندی کی تحقیقات کرتے ہوئے ترکی کو قانون کی بالادستی اور شہریوں کے حقوق کا احترام کرنا چاہیئے۔
کیری نے ترکی کی منتخب جمہوری حکومت کے لیے امریکہ کی حمایت کا اعادہ کیا لیکن ترجمان کے بقول انھوں نے اپنے ترک ہم منصب کو یہ بھی بتایا کہ "ناکام بغاوت میں امریکہ کے کسی بھی طرح کے کردار کے بارے میں مبہم بیانات یا دعوے سراسر غلط اور دو طرفہ تعلقات کے لیے نقصان دہ ہیں۔"
اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ ترکی کی طرف سے گولن کی حوالگی کے لیے کی جانے والی کسی بھی درخواست کو ان شواہد کی روشنی میں دیکھا جائے گا جو ترکی گولن کی کسی غلط سرگرمی میں ملوث ہونے کے بارے میں دے گا۔
ادھر امریکی محکمہ دفاع نے بتایا ہے کہ ترکی نے ناکام بغاوت کے بعد اتحادی افواج کو دیے گئے اپنے فضائی اڈے کی بجلی منقطع کر دی ہے اور اپنی فضائی حدود میں جنگی طور کی پروازوں کو بند کر دیا ہے۔
انجرلک کے فضائی اڈے کو امریکہ کی زیر قیادت اتحادی افواج شام اور عراق میں داعش کے خلاف فضائی کارروائیوں کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔
مبصرین ترکی کے اس اقدام کو امریکہ پر دباؤ ڈالنے کی ایک کوشش قرار دیتے ہیں۔