آسٹریلیا کے سابق کپتان اور عظیم بلے باز آئن چیپل کا کہنا ہے کہ بہت سے نوجوان اسلئے کرکٹ کی طرف راغب ہوتے ہیں کہ اُن کے سامنے کرکٹ کا کوئی رول ماڈل ہوتا ہے۔ وہ اسلئے کرکٹ دیکھتے ہیں کہ یہ ایک مقبول کھیل ہے اور پھر کوئی نہ کوئی عظیم کھلاڑی اُن کی نظر میں آ جاتا ہے جسے وہ اپنا رول ماڈل بناتے ہوئے کرکٹ کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ سوچنے لگتے ہیں کہ کیا وہ بھی اپنے ہیرو کی طرح اس کھیل میں مہارت حاصل کر پائیں گے اور اُس جیسے کارنامے انجام دے پائیں گے۔ یوں وہ اپنی جستجو کے سفر کا آغاز کر دیتے ہیں۔
آئن چیپل کہتے ہیں کہ جب تک نوجوانوں کیلئے ایسے ہیرو موجود رہیں گے جن کی وہ تقلید کر سکیں، اُس وقت تک کرکٹ انتہائی مقبول اور مضبوط کھیل رہے گا۔
شاہد آفریدی بھی ایک ایسے ہی ہیرو رہے ہیں جن کی لاکھوں نوجوان تقلید کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ بوم بوم شاہد آفریدی T20 کرکٹ کیلئے موذوں ترین آل راؤنڈر رہے ہیں۔ اگرچہ عمر اب اُن کا ساتھ نہیں دے رہی، پھر بھی اُن کے چہرے پر اب بھی وہی مسکان دکھائی دیتی ہے جس سے شائقین گزشتہ 21 برس سے مانوس رہے ہیں۔ اُن کی یہ مسکان ہمیشہ کرکٹ کیلئے اُن کے جنون کو ظاہر کرتی رہی ہے۔ اُنہوں نے حال ہی میں برطانیہ میں نیٹ ویسٹ T20 بلاسٹ چیمپین شپ کے دوران ہیمپ شائر کاؤنٹی کیلئے T20 میچ کھیلے، جہاں انہوں نے 42 بالوں پر سینچری بھی اسکور کی لیکن مجموعی طور پر ان کے کھیل میں وہ بات نہیں رہی جو اُن کے عروج کے دوران اُن کا خاصہ تھی۔ 2009 کے WT20 کے سیمی فائنل اور پھر فائنل میں اپنی بیٹنگ اور بالنگ کے ذریعے اُنہوں نے حریف ٹیموں کو زیر کرتے ہوئے پاکستان کیلئے عالمی کپ جیتا۔ وکٹیں حاصل کرنے کے بعد دونوں ہاتھ اوپر اُٹھا کر کامیابی کے اظہار کا وہ منظر کون بھلا سکتا ہے۔ وہ یقیناً T20 کے اولین بادشاہ تھے۔
آج اگر آپ کسی بہترین T20 بالر کا تصور کرتے ہیں تو وہ شاید انتہائی تیز رفتار بالر ہو گا یا پھر ایسا سپنر جو گیند کو دونوں جانب گھما سکتا ہو۔ اور اگر آپ بہترین T20 بلے باز کا تصور کرتے ہیں تو وہ شاید ایسا بلے باز ہو گا جو کسی بھی مرحلے پر 9 رنز فی اوور کی رفتار سے بیٹنگ کر سکتا ہو۔ بوم بوم آفریدی میں یہ دونوں خوبیاں اُس وقت بھی موجود تھیں جب لوگ یہ نہیں جانتے تھے کہ T20 میچ کیسا ہوتا ہے۔
کرکٹ کے کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے آندرے رسل T20 کیلئے موذوں ترین کرکٹر ہیں۔ لیکن جو لوگ کرکٹ کو جانتے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ آندرے رسل پاور پلے کے دوران اس قدر کامیاب ثابت نہیں ہوئے۔ شاہد آفریدی ایک ایسے بالر تھے جو کھیل کے کسی بھی مرحلے پر مخالف ٹیم کو شدید دباؤ میں مبتلا کر دیتے تھے اور وہ میچ کے 20 اووروں کے دوران کسی بھی وقت زوردار بیٹنگ کر سکتے تھے۔
کرکٹ کے معروف مبصر جیرڈ کیمبر کے مطابق آفرید ی کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ وقت سے ہمیشہ آگے رہے۔ بیشتر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ وہ T20 کھلاڑیوں کیلئے ایک مثالی کرکٹر تھے۔ وہ اُس وقت چوکے اور چھکے لگا تے تھے جب دوسرے کرکٹر محض ایک ایک رن بنانے کی کوشش کر رہے ہوتے تھے۔ ایک مرحلے پر کرس گیل بھی اس نتیجے پر پہنچے کہ رسکی سنگل بنانے کے مقابلے میں رسکی چوکے چھکے لگانا کہیں بہتر ہے۔ آفریدی ہمیشہ اس انداز میں بیٹنگ کرتے تھے گویا یہ میچ کا آخری مرحلہ ہے۔ سپنر کے طور پر اُنہیں کھیلنا منجھے ہوئے بلے بازوں کیلئے بھی بہت مشکل رہا ہے۔ وہ اس انداز کی کرکٹ کیلئے فطری مہارت رکھتے تھے۔ اب T20 کرکٹ آگے نکل چکی ہے۔ اب بہت سے ایسے بلے باز دکھائی دینے لگے ہیں جو آفریدی کی طرح زوردار بیٹنگ کرنے کی مہارت رکھتے ہیں۔ لیکن آفریدی کی منفرد حیثیت اسلئے اہم ہے کہ وہ اُس وقت بھی ایک مثالی کرکٹر تھے جب دیگر منجھے ہوئے کرکٹر T20 کرکٹ کی ضروریات کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔
اب بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ بوم بوم آفریدی پہلے جیسے نہیں رہے۔ لیکن نوجوانوں کیلئے وہ اب بھی ایک رول ماڈل ہیں۔