تقریباً ڈیڑھ سال کی عدالتی کاروائیوں کے بعد منگل 19 جنوری سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خلاف مقدمے کا باضابطہ آغاز ہو گیا۔ نیویارک کی ایک ضلعی عدالت میں چلنے والے اس مقدمے کا فیصلہ جیوری کے اس 12 رکنی پینل کے ہاتھ میں ہے جسے مقامی ووٹروں کی فہرست میں سے چنا گیا ہے۔
استغاثہ نے اپنے ابتدائی کلمات میں جیوری کو بتایا کہ اس مقدمے کے دوران وہ ان گواہوں کو پیش کریں گے جنہوں نے افغانستان کے صوبے غزنی کے ایک پولیس ہیڈ کوارٹر میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ایم فور رائفل اٹھا کر امریکی فوجیوں اور ایف بی آئی کے اہل کاروں پر حملہ کرتے دیکھا۔ ان میں امریکیوں کے ساتھ ساتھ وہ افغان مترجم بھی شامل ہو گا جس نے مبینہ طور پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے رائفل چھینی تھی۔
انہوں نے جیوری کو یہ بھی بتایا کہ یہ مقدمہ امریکہ میں اس لیے چلایا جا رہا ہے کہ جن پر حملہ کیا گیا وہ امریکی تھے۔
جواب میں وکلائے صفائی نے اپنے ابتدائی کلمات میں جیوری کو بتایا کہ اس مقدمے کی کاروائی کے دوران وہ ثابت کریں گے کہ عافیہ صدیقی نے اسے چلانا تو کجا، مذکورہ ایم فور رائفل کو ہاتھ ہی نہیں لگایا تھا، کیونکہ رائفل پر سے نہ تو ڈاکٹر صدیقی کی انگلیوں کے نشان ملے، اور نہ ہی اس کمرے سے ایم فور کی گولیاں۔
خود عافیہ صدیقی شروع سے اس عدالت کا بائیکاٹ کرتی آئی ہیں۔ منگل کی صبح بھی انہوں نے عدالت میں کھڑے ہو کر پہلے گواہ کے خلاف شور مچایا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے تو جج نے انہیں کمرہ عدالت سے باہر بھیج دیا۔
قانونی ماہر جان گیلون کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں جج کو مخالف حقوق میں توازن رکھنا پڑتا ہے:
”ایک طرف تو ملزم کا حق ہے کہ وہ ان لوگوں کا سامنا کرے جو اس کے خلاف گواہی دے رہے ہیں، اور دوسری طرف حکومت کا یہ حق ہے کہ ملزموں کے خلاف نظم و ضبط کےساتھ مقدمہ چلائے۔”
استغاثہ کی طرف سے پیش کیے گئے پہلے تین گواہوں نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو مبینہ طور پر افغان پولیس نے غزنی کے گورنر عثمان کی رہائش گاہ کے باہر سے حراست میں لیا تھا اور ان کے پرس سے جو اشیا برآمد ہوئیں ان میں ایسے کاغذات شامل تھے جن میں کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری اور امریکیوں پر حملہ کرنے کے منصوبوں کا ذکر تھا۔
گواہوں نے یہ بھی بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ کے پاس سے کچھ کیمیائی مادے اور ایک کمپیوٹر ڈرائیو بھی برآمد ہوئی۔
دوسری طرف ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خاندان والوں کا الزام ہے کہ انہیں 2003ء میں کراچی سے ان کے تین بچوں سمیت پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے اغوا کر کے امریکیوں کے حوالے کر دیا تھا، جس کے بعد انہیں غیر قانونی طور پر بگرام کے ہوائی اڈے پر قید رکھا گیا اور ان پر تشدد کیا گیا۔
ان کا سب سے بڑا بیٹا ان کے ساتھ ہی افغانستان سے ملا تھا اور اب پاکستان میں ان کی بہن اور ماں کے پاس ہے۔ اس کا ذہنی علاج جاری ہے۔ باقی دونوں بچوں کا ابھی تک کوئی پتا نہیں چل سکا۔
پاکستانی حکومت پر دباؤ ہے کہ وہ انسانی بنیادوں پر امریکہ سے ڈاکٹر صدیقی کو پاکستان واپس بھیجنے کا مطالبہ کرے۔
ڈاکٹر صدیقی کے وکلا کی فیس بھی حکومت پاکستان کی طرف سے ادا کی جا رہی ہے اور حال ہی میں وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی سے اپنے خطاب میں بھی عافیہ صدیقی کا ذکر کیا تھا۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی حمایت میں مقامی پاکستانی اور مسلم برادری کے بہت سے ارکان کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ اس مقدمے کی کاروائی روزانہ ہو گی۔