ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وکلا عدالت میں ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ انہوں نے نہ تو ایم-4 رائفل کو ہاتھ لگایا تھا اور نہ ہی اس سے گولی چلائی تھی۔
”ہم یہ نہیں کہتے کہ انہوں نے اپنے دفاع کے لیے رائفل اٹھائی یا یہ کوئی حادثہ تھا۔ ہم کہتے ہیں کہ انہوں نے رائفل کو ہاتھ ہی نہیں لگایا۔” وکیل صفائی لنڈا مورینو نے پیر کو نیو یارک کی ایک عدالت میں مقدمے کی باضابطہ کاروائی سے پہلے ہونے والی پیشی میں کہا۔
امریکہ میں اعلٰی تعلیم حاصل کرنے والی پاکستانی خاتون عافیہ صدیقی پر الزام ہے کہ انہوں نے 2008ء میں افغانستان میں ایک امریکی تفتیشی ٹیم کے ارکان کو ایم-4 رائفل سے قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔
وکلائے صفائی مقدمے میں بحث کریں گے کہ ایم-4 رائفل سے کوئی ایسا فورنزک ثبوت نہیں ملا جس سے ثابت کیا جا سکے کہ ڈاکٹر صدیقی نے اسے اٹھایا تھا۔ یعنی نہ تو رائفل پر سے ان کی انگلیوں کے نشان ملے ہیں اور نہ ہی ان کا ڈی این اے ملا ہے۔ اس کے علاوہ، ڈاکٹر صدیقی کے ہاتھوں پر بارود کے ذرات بھی نہیں ملے جو رائفل فائر کرنے سے ملنے چاہیئے تھے۔
بدھ، 13 جنوری سے ڈاکٹر صدیقی کے مقدمے کے لیے جیوری کے پینل کا انتخاب شروع ہوگا اور منگل 19 جنوری کو ان کے خلاف مقدمے کا باقاعدہ آغاز ہوگا۔
استغاثہ کی کوشش رہے گی کہ ایسے ماہرین پیش کیے جائیں جو جیوری کو بتائیں گے کہ ہتھیاروں پر سے انگلیوں کے قابلِ استعمال نشان حاصل کرنا بے حد مشکل ہوتا ہے۔
وکیل استغاثہ کرسٹوفر لوین نے عدالت کے سامنے یہ بھی واضح کیا کہ وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کریں گے کہ ڈاکٹر صدیقی القاعدہ، طالبان، یا کسی اور غیر ملکی دہشت گرد تنظیم سے تعلق رکھتی ہیں۔
ڈاکٹر صدیقی کی پانچ رکنی دفاعی ٹیم کی کوشش ہے کہ استغاثہ کو وہ تمام شواہد عدالت میں پیش کرنے کی اجازت نہ ملے جو امریکی حکام کے بقول ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی حراست کے وقت ان کے پاس سے ملے تھے۔ ان میں مبینہ طور پر ایک کمپیوٹر فلیش ڈرائیو، سوڈیم سائنائیڈ سمیت کچھ کیمیائی مادے، اور اردو اور انگریزی میں لکھے کچھ کاغذات ہیں جن میں ہتھیار بنانے کے طریقوں اور امریکہ پر حملہ کرنے کے منصوبوں کا ذکر ہے۔
وکلائے صفائی کا کہنا ہے کہ حکومت نے عافیہ صدیقی کے خلاف دہشت گردی کا نہیں بلکہ اقدامِ قتل کا مقدمہ درج کیا ہے اور ان تمام شواہد کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ بات ابھی ثابت نہیں ہوئی کہ یہ شواہد عافیہ صدیقی کے پاس سے ہی ملے تھے۔ جج رچرڈ برمن نے ابھی اس درخواست پر فیصلہ محفوظ رکھا ہے۔
پیشی کے دوران عدالت میں عافیہ صدیقی کے بھائی محمد صدیقی، پاکستانی سفارت خانے کے اعلٰی اہل کار ثاقب رؤف اور امریکہ میں مقیم پاکستانی اور مسلم برادری کے ارکان موجود تھے۔
دفاعی ٹیم میں شامل پانچ وکلا میں سے تین کی فیس حکومت پاکستان ادا کر رہی ہے، جب کہ باقی دو امریکی حکومت کی طرف سے نامزد کردہ ہیں۔
خود عافیہ صدیقی گزشتہ کئی پیشیوں سے اس مقدمے کے بائیکاٹ کا اعلان کرتی آئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ نہ تو اس عدالت کو تسلیم کرتی ہیں، نہ ہی وکلائے صفائی کو اپنا وکیل مانتی ہیں اور نہ ہی اس عدالت میں پیش ہونا چاہتی ہیں۔
دوسری طرف امریکہ میں مسلمانوں کے حقوق کی تنظیم مسلم لیگل فنڈ نے ڈاکٹر صدیقی کے حق میں عوامی رائے ہموار کرنے کے لیے تعلقات عامہ کی کمپنیوں کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تنظیم نے امریکی مسلمانوں کو یہ بھی پیغام دیا ہے کہ خوف کے دائرے سے باہر نکلیں اور زیادہ سے زیادہ تعداد میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مقدمے کی سماعتوں میں شریک ہوں۔