امریکہ پہنچنے والے افغان پناہ گزینوں کو 15 فروری تک فوجی اڈوں سے نکال کر شہروں میں آباد کرنے کا مرحلہ

افغان پناہ گزینوں کی آمد (فائل فوٹو)

اسرار احمد صابر امریکی فوج کے ایک سابق مترجم افغان پناہ گزین کے طور پر اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتے ہیں۔ وہ اگست کے مہینے میں کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے باہر جمع ہونے والے اس ہجوم میں شامل تھے، جو فوجی پروازوں کے ذریعے ملک سے انخلاء میں کامیاب ہوا۔ اسرار احمد صابر کے پاس کپڑوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔

اسرار احمد صابر اس وقت امریکی ریاست نیو جرسی میں واقع فوجی اڈے پر اپنے جیسے دیگر 11 ہزار افغان پناہ گزینوں کے ساتھ موجود ہیں۔ انہیں ایک نئے ملک میں آبادکاری کا طویل مرحلہ درپیش ہے۔ لیکن وہ اپنے خاندان کے ان افراد کی سلامتی کے بارے میں فکر مند ہیں، جنہیں وہ اپنے پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔

وہ اس سال 26 اگست سے ریاست نیو جرسی کے فوجی اڈے McGuire-Dix-Lakehurst پر رہ رہے ہیں۔ جہاں پناہ گزینوں کے لیے تین عارضی گاوں قائم کیے گئے ہیں۔

انتیس سالہ اسرار احمد صابر کا کہنا ہے کہ وہ اور ان جیسے دیگر افغان پناہ گزین اپنے نئے گھروں میں نئی زندگی شروع کرنا چاہتے ہیں۔ وہ پرجوش ہیں، لیکن آبادکاری کا یہ عمل بہت سست ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

امریکہ: افغان پناہ گزینوں کی رہائش کے عمل میں درپیش مشکلات

امریکی حکومت کے ساتھ مل کر پناہ گزینوں کی آبادکاری کے لئے کام کرنے والے نو اداروں کو 'آپریشن الائیز ویلکم' کا نام دیا گیا ہے۔

اگست سے شروع ہونے والا 'آپریشن الائیز ویلکم'نام کا نو اداروں پر مشتمل پروگرام امریکہ میں کئی دہائیوں بعد پناہ گزینوں کی آباد کاری کی سب سے بڑی کوشش ہے۔

افغانستان سے فوجیوں کا انخلا اور امریکہ کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ ہو چکا لیکن افغان پناہ گزین اب بھی آ رہے ہیں۔ وہ مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں۔ اپنے وطن میں طالبان کی انتقامی کارروائیوں اور معاشی تباہی کی خبروں کی وجہ سے بھی خوف کا شکار ہیں۔

'آپریشن الائیز ویلکم' نے اس ہفتے ایک سنگ میل عبور کر لیا جب امریکی کمیونٹیز میں دوبارہ آباد ہونے والی پناہ گزینوں کی تعداد 37 ہزار تک پہنچ گئی، جبکہ امریکہ بھر کے چھ فوجی اڈوں پر افغان پناہ گزینوں کی تعداد 35 ہزار ہے۔

لیکن، اس کوشش میں شامل افراد نے یہ تسلیم کیا ہے کہ یہ مرحلہ متعدد وجوہات کی بناء پرمشکل ثابت ہوا ہے۔ اس کی کچھ وجہ سستی رہائش کی کمی اور سابق صدر ٹرمپ کے دور میں پناہ گزینوں کے امدادی پروگراموں میں کمی بھی ہے۔

مہاجرین کی آبادکاری میں مدد کرنے والے ادارے چرچ ورلڈ سروس کے سینئر نائب ایرول کیک کا کہنا ہے، یہ سسٹم کے لیے ایک دھچکا تھا کیونکہ ایک طویل عرصے سے ہمارے پاس ایک ہی وقت میں اتنے زیادہ لوگ کبھی نہیں آئے تھے۔

امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی ، امریکہ کی مرکزی وفاقی ایجنسی، اور آبادکاری کی تنظیمیں اگلے سال پندرہ فروری تک تمام افغان پناہ گزینوں کو فوجی اڈوں سے نکال کر سویلین رہائشی علاقوں میں آباد کرنے پرکام کر رہے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

افغان پناہ گزینوں کو سستی طبی امداد کیسے مل سکتی ہے؟

امریکی ریاست نیو جرسی کا فوجی اڈا اس وقت افغان پناہ گزینوں کی سب سے بڑی تعداد کی میزبانی کر رہا ہے۔ اس وقت یہاں 14,500 افغان مہاجرین موجود ہیں۔ دوسرے نمبر پر ریاست وسکونسن کے فورٹ میک کوئے فوجی اڈے کا نمبر ہے، جہاں 7,500 پناہ گزیں موجود ہیں۔

امریکہ سے باہر افغان مہاجرین کے لئے قائم کئے گئے عارضی مقامات پر مزید 3,200 افراد امریکہ کے لیے پروازوں کے منتظر ہیں۔ جبکہ اب بھی کئی لوگ افغانستان سے نکلنے کے منتظر ہیں۔

مہاجرین کی آبادکاری میں مدد کرنے والے ادارے چرچ ورلڈ سروس کے سینئر نائب صدر ایرول کیک کہتے ہیں کہ میں ڈیڈ لائن سے پہلے افغان مہاجرین کو فوجی اڈے سے نکال کر ان کی آبادکاری کے امکانات کے بارے میں پر امید ہوں۔

امریکی حکومت نے گزشتہ ہفتے صحافیوں کو نیو جرسی کے فوجی اڈے کا دورہ کروایا، جہاں پناہ گزین اینٹوں سے بنی ان عمارتوں میں رہ رہے ہیں، جو پہلے بیرکوں کے طور پر استعمال ہوتی تھیں، یا پھر انہیں خیمے کی طرح کے پہلے سے تیار شدہ عمارتی ڈھانچے میں رکھا گیا ہے۔

اس اڈے پر فٹ بال کے میدان، باسکٹ بال کورٹس اور گودام ہیں جہاں پناہ گزینوں کو کپڑے اور دیگر ضروری سامان مہیا کیا جاتا ہے۔ یہاں بچوں کے لیے کلاس رومز بھی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑوں کو انگریزی سکھانے اور روزگار حاصل کرنے کے قابل بنانے کی تربیت دی جارہی ہے ۔

Your browser doesn’t support HTML5

افغانستان سے انخلا میں والدین سے بچھڑنے والے ننھے فرزاد کی کہانی

یہاں ایک کلینک بھی ہے، جہاں اڈے پر رہنے والے افغان پناہ گزینوں کو امیگریشن کے عمل کے لئے طبی معائنہ اور ویکسین لگوانے کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان میں کوویڈ نائنٹین کی ویکسین بھی شامل ہے۔ اس اڈے پر 100 سے زائد بچوں کی پیدائش ہو چکی ہے۔

اسرار احمد صابر افغانستان میں ایک بھائی اور بہن کو چھوڑ کر اکیلے امریکہ آئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "یہاں پناہ گزین خوش ہیں، بس آگے بڑھنے کے لیے بے چین ہیں"۔ انہوں نے کہا کہ یہاں آنا ایک خواب ہے۔

پناہ گزینوں میں مائیکرو بایالوجسٹ غلام ایشان شریفی بھی ہیں۔ وہ قطر میں 23 دن گزارنے کے بعد اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ چودہ نومبر کو امریکہ پہنچے ہیں۔ وہ کابل میں رہ جانے والی اپنی بالغ بیٹیوں کے بارے میں فکر مند ہیں جو طالبان کے آنے سے پہلے سرکاری ملازمت کرتی تھیں۔

وہ کہتے ہیں کہ "اب ان کے پاس کوئی نوکری نہیں ہے۔ وہ باہر بھی نہیں جا سکتیں، اس لیے ہم ڈرتے ہیں کہ ان کا کیا ہوگا۔ ہم امید کر رہے ہیں کہ خدا اس مسئلے کو حل کرے گا۔"

انہوں نے کہا کہ وہ امریکہ کی ریاست کولوراڈو کے شہر ڈینور میں آباد ہونے کی امید رکھتے ہیں۔ لیکن ابھی تک نہیں جانتے کہ ایسا ہو گا یا نہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

پناہ گزینوں کو مفت کھانا فراہم کرنے والا افغان شیف


افغان ایئر فورس کے سابق کرنل سلیمان راحیل، نوعمری میں اپنے خاندان کے ساتھ افغانستان سے پناہ گزین کے طور پر امریکہ آئے تھے۔ وہ فوجی اڈے پر پناہ گزینوں کے ساتھ کام کرنے کے لیے عارضی اسائنمنٹ پر ہیں۔

راحیل نے کہا کہ وہ ان مشکلات کو سمجھتے ہیں، جو نئے آنے والوں کو پیش آئیں گی، کیونکہ ان کے اپنے والدین نے بھی ایسی مشکلات کا سامنا کیا تھا۔

وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ زیادہ تر پناہ گزین ان علاقوں میں جانا چاہتے ہیں جہاں افغان تارک وطن آبادیاں موجود ہیں، جیسے کہ شمالی کیلیفورنیا، واشنگٹن ڈی سی کا علاقہ اور ہیوسٹن۔ پناہ گزینوں کی جانب سے کسی مخصوص علاقے میں آباد ہونے کی درخواستیں آباد کاری کی کوششوں پر دباؤ ڈال رہی ہیں اور تاخیر کا باعث بھی بن رہی ہیں۔
آباد کاری کے مشکل مرحلے کو نمٹانے کے ذمہ دار اداروں نے ایسے مقامی گروہوں کی مدد بھی حاصل کی ہے جو عام طور پر پناہ گزینوں کے ساتھ کام کرتے ہیں، جیسے کہ سابق امریکی فوجیوں کی تنظیمیں اور مقامی اسپورٹس کلب جو مختلف علاقوں میں پناہ گزین خاندانوں کی کفالت کے لیے انہیں سپانسر کرنے میں مدد کرتے ہیں۔

آبادکاری کے کام سے وابستہ حکام کا کہنا ہے کہ اگر اس پورے عمل کو گوام جیسے امریکی علاقوں میں منتقل کر دیا جاتا یا اگر ان کی آمد کے لیے پہلے سے تیاری کرنے کے لیے زیادہ وقت مل جاتا تو آسانی رہتی۔ گوام ماضی میں اس مقصد کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔

آبادکاری میں مدد دینے والے نو اداروں میں ایک اور ادارے ایچ آئی ای ایس کے صدر مارک ہٹ فیلڈ کہتے ہیں کہ ایسی منصوبہ بندی انخلا کا اعلان کرنے سے پہلے کی جانی چاہیے تھی۔

Your browser doesn’t support HTML5

افغانستان: کیا جنگ کے دوران بے گھر ہونے والوں کی واپسی ممکن ہے؟

امریکہ میں پناہ گزینوں کو دوبارہ آباد ہونے کے بعد عارضی بنیادوں پر امداد ملتی ہے، لیکن زیادہ تر سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ خود اپنی کفالت کی اہلیت حاصل کر لیں۔ یہ اس وقت مشکل ثابت ہوتا ہے، جب وہ انگریزی زبان نہیں بول سکتے یا ان کے پاس ایسی تعلیمی اسناد نہیں ہوتیں جنہیں امریکہ میں تسلیم کیا جاتاہو یا ان کے پاس کسی روزگار کا تجربہ نیں ہوتا۔

اسرار احمد صابر نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ فوجی ترجمان کے طور پر ان کا تجربہ انہیں فوج میں شامل ہونے کا موقع فراہم کرے گا۔ انہیں حال ہی میں معلوم ہوا ہے کہ وہ انہیں امریکی ریاست ایریزونا کے شہر فینکس میں آباد کیا جا رہا ہے۔ لیکن وہ نہیں جانتے کہ وہاں ان کی رہائش کا بندوبست کب تک ہو سکے گا۔