طالبان نے جمعرات کو صبح سویرے افغانستان کے چار صوبوں کی فوجی چوکیوں پر حملے کیے جس سے سیکیورٹی فورسز اور حکومت نواز ملیشیا کے 30 اہل کار ہلاک ہو گئے۔
طالبان موسم سرما میں بھی حکومت کے خلاف اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں جس سے سرکاری فورسز کو شدید جانی اور مالی نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ جب کہ دوسری جانب امریکی فوج اور ان کے اتحادیوں کے فضائی حملوں میں طالبان کے کئی کمانڈر بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔
افغانستان میں جاری خانہ جنگی کو 17 سال ہو چکے ہیں اور افغان حکومت اور طالبان دونوں ہی ایک دوسرے کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ملک کے شہری علاقوں پر حکومت کا کنٹرول ہے جبکہ زیادہ تر دیہی علاقوں میں طالبان کا حکم چلتا ہے۔
طالبان اور افغان حکومت کے درمیان لڑائیوں کے ساتھ ساتھ افغان مفاہمتی عمل کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد طالبان نمائندوں کے ساتھ مذاكرات کے تین دور مکمل کر چکے ہیں۔ چوتھا طے شدہ مذاکراتی دور طالبان نے اس ہفتے منسوخ کر دیا ہے۔
طالبان کے تازہ حملے شمالی صوبوں قندوز، بغلان، تخار اور مغربی علاقے بادغس میں ہوئے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئیٹرز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبہ قندوز کے علاقے قلعہ زال کے سربراہ احمد فہیم نے بتایا ہے طالبان کے ایک بڑے گروہ نے صبح سویرے سیکیورٹی چوکیوں پر حملے کیے جن سے 10 فوجی اور پولیس اہل کار ہلاک اور 11 زخمی ہو گئے۔
احمد فہیم نے دعویٰ کیا کہ لڑائی میں 25 طالبان عسکریت پسند بھی مارے گئے۔
خبروں کے مطابق بادغس اور تخار صوبوں میں طالبان نے چوکیوں پر حملے کر کے حکومت نواز ملیشیا کے 16 اہل کار ہلاک کر دیے۔
مغربی صوبے بادغس کے گورنر کے ترجمان جمشید شہابی کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ جھڑپوں میں سیکیورٹی فورسز کے 6 ارکان ہلاک اور 10 زخمی ہو گئے۔
طالبان کے ترجمان ذبح اللہ مجاہد نے حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کے درجنوں افراد کو ہلاک کر دیا گیا اور بھاری مقدار میں ہتھیار اور گولہ بارود قبضے میں لے لیا گیا۔