افغانستان کے بدلتے ہوئےحالات کے ساتھ معاشرے میں خواتین کے حقوق اور ترقی پر بھی کام کیا جا رہا ہے اور اس کی منفرد مثال ایک افغان کالج ہے، جو نوجوان خواتین کو موسیقی کی پیشکش کے ذریعے اچھی زندگی گزارنے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔
افغانستان نیشنل انسٹی ٹیوٹ (اے این آئی ایم) ایک خود مختار کالج ہے، جس نے ملک کے محروم طبقے کی لڑکیوں اور لڑکوں کو موسیقی کے ذریعے ان کی زندگی تبدیل کرنے کا ایک طریقہ پیش کیا ہے۔
ادارہ خاص طور پر سڑکوں پر رہنے والے بچوں اور دور دراز کے پسماندہ صوبوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کو مقامی روایتی موسیقی اور مغربی کلاسیکی موسیقی کی تربیت دے رہا ہے اور غریب لڑکیوں کو مستقبل میں موسیقار بننے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔
یہاں لگ بھگ دو سو سے زائد طالب علم زیر تعلیم ہیں۔ کالج خاص طور پر لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے مصروف عمل ہے جبکہ یہاں زیر تعلیم طالب علموں میں سے ایک تہائی لڑکیاں ہیں۔
کالج کی تین منزلہ عمارت ایک بڑے کیمپس، ریاض کے کمرے اور ریہرسل کے ساونڈ پروف کمروں سمیت ایک بڑے آڈیٹوریم پر مشتمل ہے، کالج کے ساتھ ایک ہاسٹل بھی واقع ہے۔
طلبہ کو بذریعہ آڈیشن داخلہ دیا جاتا ہے اور موسیقی کے آلات سیکھانے کے ساتھ ساتھ ریاضی، انگریزی، قرآن اور کمپیوٹر کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔
اخبار گارڈین کے ایک مضمون کے مطابق افغانستان میں 1996ء سے 2001ء کے درمیان انتہا پسند نظریات کے نفاذ کے ایک حصے کے طور پر، یہاں روایتی افغان موسیقی پر پابندی عائد تھی۔ اس عرصے میں موسیقاروں پر حملے ہوئے اور ان کے موسیقی کے آلات کو توڑ دیا گیا جبکہ پرانے ریکارڈ تباہ کر دیے گئے۔
افغان نیشنل انسٹی ٹیوٹ خاص طور پر ایسے بچوں کو مفت پیشہ ورانہ موسیقی کی تربیت فراہم کر رہا ہے، جنھیں آمدنی کے حصول کے لیے کام کرنا پڑتا ہے یا پھر سڑکوں پر بھیک مانگنی پڑتی ہے۔
روایتی افغان موسیقی کے علاوہ کالج میں مغربی کلاسیکی موسیقی اور پشتو اور دری یعنی افغانستان کی دو بنیادی زبانوں کی کلاسیں دی جاتی ہیں۔
رواں برس کالج سے 36 گریجویٹ نے یونیورسٹی کا داخلہ امتحان دیا اور 44 طلبہ نے بیرون ملک میں تعلیم کے لیے وظائف حاصل کیے ہیں۔
افغانستان کے ایک دور دراز اور انتہائی پسماندہ صوبے سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی ناظرہ اسی کالج میں زیر تعلیم ہے جو ایک لڑکیوں کے یتیم خانے میں رہتی تھی اور یہاں مفت چار سالہ گریجویٹ کورس کا مطالعہ کر رہی ہے۔
افغانستان میں موسیقی کی تنوع کی ایک طویل روایت رہی ہے جس میں صوفی، درباری، ذکر اور قوالی سمیت موسیقی کے آلات بجانے کا فن شامل ہے۔
یہاں 1919ء میں غازی امان اللہ خان نے تعلیم اور بنیادی ڈھانچے اور دیگر اصلاحات کے ساتھ اسکولوں میں موسیقی کو بطور مضمون شامل کیا تھا جبکہ نادر شاہ کے دور میں بھی موسیقی کو کافی فروغ ملا تھا۔ اس خطے نے اول میر اور شاہ ولی خان جیسے نامور موسیقار پیدا کیے ہیں لیکن طالبان کے ہاتھوں یہاں ثقافتی اور فنکارانہ سرگرمیاں مفلوج ہو کر رہ گئی تھیں۔
تاہم اس ملک میں آج بھی قدامت پسند افراد کی جانب سے موسیقی کو سخت ناپسندیدگی کا سامنا ہے دوسری جانب سیاسی کشیدگی نے ثقافتی سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کر رکھی ہے ایسے میں موسیقی کی تربیت کا یہ ادارہ امید کا ایک پیغام ہے کہ افغانستان میں قومی روایتی موسیقی کی روایت کو پھر سے بحال کیا جاسکتا ہے۔