انسانی حقوق کی علم بردار ایک عالمی تنظیم نے کہا ہے کہ افغانستان میں جبری شادی اور خاوند کے ناروا سلوک کے باعث گھروں سے فرار کی کوشش کرنے والی 400 سے زائد خواتین جیلوں میں قید ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ وہ خواتین جو ایسے نامساعد حالات میں اپنے گھروں سے بھاگنے کی کوشش کرتی ہیں ان پرعموماً زنا کا الزام لگا کر اُنھیں ’’اخلاقی جرائم‘‘ کی مرتکب قرار دے کر قید کر دیا جاتا ہے جب کہ قصوروار آزاد گھومتے رہتے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے 58 ایسی عورتوں اور لڑکیوں سے انٹرویو کیا۔ ان میں ایک ایسی خاتون بھی شامل تھی جس کے شوہر نے اسے پیچ کس کے ذریعے صرف اس لیے اذیت کا نشانہ بنایا کہ اس نے گھر پر مرد مہمان کو مدعو کیا تھا۔
رپورٹ میں ایک ایسی عورت کا بھی ذکر ہے جس کی شادی جبراً ایک پرتشدد، شرابی اور منشیات کے عادی شخص سے اس وقت کی گئی جب وہ صرف 12 سال کی تھی۔ اس عورت پر اس کے شوہر نے اپنے ایک اس رشتہ دار کے ساتھ ناجائز تعلقات میں ملوث ہونے کا الزام لگایا جس نے اسے فرار ہونے میں مدد دی۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان میں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے بہتری آئی ہے۔ خواتین کو مساوی حقوق دینے اور ان کے خلاف تشدد کو جرم قرار دینے کی نئی آئینی یقین دہانیوں کو بھی سراہا گیا ہے۔
لیکن تنظیم کے بقول افغانستان میں انصاف کا نظام کارگر نہیں ہے۔ گروپ نے افغان صدر پر الزام لگایا ہے کہ وہ بنیاد پرست مذہبی رہنماؤں سے بہت سے سمجھوتے کرتے رہتے ہیں اور حقوق نسواں پر اپنا موقف تیزی سے تبدیل کرتے رہتے ہیں۔
اس رپورٹ پر افغان حکام کی طرف سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔