بغاوتیں باقاعدہ معاہدوں سے ختم نہیں ہوتیں: وائن بام

  • قمر عباس جعفری

بغاوتیں باقاعدہ معاہدوں سے ختم نہیں ہوتیں: وائن بام

’جو لوگ کوئی سمجھوتا دیکھنا چاہتے ہیں، اُنھوں نے اِسے بڑھا چڑھا کرپیش کیا ہے، جب کہ میرے خیال میں یہ حقیقت نہیں ہے۔ بلکہ، حقیقت یہ ہے کہ طالبان نے واضح کر دیا ہے کہ اِس وقت وہ اقتدارمیں کسی قسم کی ساجھےد اری میں یا کسی سمجھوتے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ وہ یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، اور یہاں یہ بات کوئی سننا نہیں چاہتا‘

کابل میں ہونے والے خودکش کار بم حملے کے بارے میں، جس میں 13امریکی فوجیوں سمیت 17افراد ہلاک ہوئے، بات کرتے ہوئے پاکستان اور افغانستان کے امور کے امریکی ماہر ڈاکٹر مارون وائن بام نے امریکی فوجیوں کی ہلاکت کو ایک ’بڑا نقصان‘ قرار دیا ہے۔

اتوار کو ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے، ڈاکٹر وائن بام نے کہا کہ اِس واقعے پر خاص طور پر کانگریس میں ’بہت ردِ عمل ہوگا‘، جب کہ، اُن کے بقول، اِس سے افغانستان سے واپسی کے امریکی نظام الاوقات پر’ کوئی اثر نہیں پڑے گا‘، جِس کے مطابق 2014ء تک امریکی فوجیوں کی واپسی طے ہے۔

ایک سوال کے جواب میں کہ ایسے میں جب نیٹو افواج کی واپسی کا عمل شروع ہوچکا ہے، طالبان کی جانب سے اپنی سرگرمیوں میں اضافے کا سبب کیا ہے اور کیا اِس سے مذاکرات کے عمل پر اثر نہیں پڑے گا، اُن کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ’مذاکرات کا واقعی کوئی عمل جاری ہے‘، جب کہ اِس ضمن میں، ’کچھ باتیں ضرور ہوئی ہیں‘۔

اُن کے الفاظ میں: ’جو لوگ کوئی سمجھوتا دیکھنا چاہتے ہیں اُنھوں نے اُسے بڑھا چڑھا کرپیش کیا ہے، جب کہ میرے خیال میں یہ حقیقت نہیں ہے۔ بلکہ، حقیقت یہ ہے کہ طالبان نے واضح کر دیا ہے کہ اِس وقت وہ اقتدارمیں کسی قسم کی ساجھےد اری میں یا کسی سمجھوتے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ وہ یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، اور یہاں یہ بات کوئی سننا نہیں چاہتا‘۔

اُنھوں نے کہا کہ تحریری سیاسی معاہدے مملکتوں کے درمیان ہوتے ہیں، تاکہ کسی تصادم کو ختم کیا جاسکے۔ لیکن جب تصادم میں ایک نان اسٹیٹ ایکٹر شامل ہو، جیسا کہ طالبان جنگجو ہیں، تو یہ بغاوتیں باقاعدہ معاہدوں سے ختم نہیں ہوتیں۔

ڈاکٹر وائن بام کا کہنا تھا کہ اگر نیٹو فورسز افغانستان کی سکیورٹی فورسز اور پولیس کو معیار کے مطابق تربیت دینے میں کامیاب ہوجاتی ہیں اور وہ بھاری ذمہ داریاں سنبھال سکتی ہیں، تو وہاں غیر ملکی فوجیوں کی ایک چھوٹی سی تعداد تربیتی اور مشاورتی حیثیت سے باقی رہے گی اور وہاں مقاصد حاصل کیے جا سکیں گے۔ لیکن، اگر افغان فورسز تیار نہ ہو سکیں اور وہاں نظم و نسق بہتر نہ ہوسکا تو صورتِ حال خراب ہوگی، اور اِس کا زیادہ تر انحصار افغانستان میں ہونے والے آئندہ صدارتی انتخابات پر ہوگا۔

تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ سنیئے: