کیا افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی ممکن ہے؟

  • قمر عباس جعفری

میوند میں افغان طالبان اور عام شہری افغان نیشنل آرمی کی ہموی کے اوپر کھڑے ہیں (فائل)

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک نئے ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ امریکہ افغانستان میں اس وقت ایک پولیس فورس کے طور پر کام کر رہا ہے، نہ کہ ایک لڑنے والی قوت کی حیثیت سے، جو کہ دراصل وہ ہے۔ اور 19 سال کے بعد وقت آگیا ہے کہ افغان خود اپنے ملک کی پولیس فورس کا کام سنبھالیں اور ہم اپنی افواج کو واپس وطن لے آئیں۔ لیکن، گہری نظر رکھیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے اور اگر ضروری ہو تو برق رفتاری سے کارروائی کریں۔

حالانکہ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو غیر متوقع ہو کیوںکہ عرصے سے اس بارے میں اشارے دئے جا رہے ہیں اور خاص طور سے ایک ایسے وقت میں ایسا بیان منطقی اعتبار سے غلط بھی نہیں ہے، جبکہ امریکہ میں صدارتی انتخابات سر پر ہیں جو حالات کے تناظر میں دونوں ہی پارٹیوں کے امیدواروں کے لئے مشکل نظر آتے ہیں۔

لیکن، اس خطے کے حالات پر نظر رکھنے والے ماہرین اور تجزیہ کاروں کے خیال میں اگر واقعی ایسا ہوا کہ امریکہ افغانستان کے متحارب دھڑوں کے درمیان کوئی قابل عمل معاہدہ کئے بغیر اور وہاں کوئی وسیع البنیاد حکومت قائم کئے بغیر نکل آیا جس کے ساتھ ہی ظاہر ہے کہ دوسری بین الاقوامی افواج بھی نکل آئیں گی، تو یہ 1999 والی غلطی کا اعادہ ہو گا، اور افغانستان میں اسی طرح پھر کشت و خون شروع ہو جائے گا، جیسا 1999 کے بعد ہوا تھا۔ اور افغانستان کے علاوہ علاقائی بلکہ بین الاقوامی سیکیورٹی بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔

پروفیسر نجیب اللہ آزاد افغان صدر اشرف غنی کے سابق ترجمان اور ان کی انتخابی مہم کے ایک اعلیٰ عہدیدار رہے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے، انہوں نے کہا ''پہلی بات تو یہ کہ یہ کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہے۔ گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرے سے ان ادوار کے سیاسی رہنماؤں کی جانب ایسے بیانات خاص طور سے صدارتی انتخابات کے برسوں میں آتے رہے ہیں۔ اور یہ بیان بدلتے رہتے ہیں اور موجودہ حکومت بھی یہ ہی کر رہی ہے''۔

Your browser doesn’t support HTML5

افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کیا ممکن ہے؟

انہوں نے کہا کہ طالبان کے ساتھ جو امریکہ کا معاہدہ ہے اس میں بھی امریکی افواج کی فوری واپسی کی کوئی بات نہیں کی گئی اور یہ سوال بھی سامنے آئے گا کہ کیا خطے کی جیوپولیٹیکل اور جیواکنامک صورت حال ایسی ہے کہ امریکہ وہاں اپنی موجودگی برقرار نہ رکھنے کا متحمل ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو گا۔ یہ صرف انتخابی سال کی باتیں ہیں۔

لیکن، انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو اس سے طالبان کو جنہیں پہلے ہی دوحہ معاہدے کے تحت بالادستی حاصل ہو گئی ہے انہیں ملک میں مزید بالا دستی حاصل ہو جائے گی اور نہ صرف افغانستان کی اندرونی صورت حال بدتر ہوگی بلکہ خطے اور پوری دنیا کی سیکیورٹی کے لئے خطرات پیدا ہو جائیں گے۔

انھوں نے کہا کہ دنیا ماضی میں اس کا بخوبی مشاہدہ کر چکی ہے۔ ایسی صورت میں افغانستان ایک بفرزون بن سکتا ہے اور علاقائی قوتیں اپنے اپنے مفادات کے لئے میدان میں کود سکتی ہیں اور پھر طالبان کی راہ روکنا مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن ہو گا۔

پاکستان کے فوجی سراغرسانی کے ادارے، آئی ایس آئی کے ایک سابق عہدیدار بریگیڈیئر حامد سعید نے اس حوالے سے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر 1999 میں افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت بناکر اسے مستحکم حالت میں چھوڑا جاتا تو آج یہ صورت حال نہ ہوتی۔

انھوں نے کہا کہ اگر اسی غلطی کو ایک بار پھر دہرایا گیا تو پھر وہی نتیجہ نکلے گا جو آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ وہاں پھر خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہوگی، پھر لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر نکلیں گے اور پورے خطے کے لئے ایک ایسے وقت میں مسائل شدید ہو جائیں گے، جب کرونا اور اقتصادی بد حالی نے پہلے ہی بہت تباہی پھیلا رکھی ہے۔

افغان امور کے ایک اور ماہر، عقیل یوسف زئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ امریکی افواج کا افغانستان سے اگر انخلا ہوتا ہے تو صورتحال انتہائی پیچیدہ ہو جائے گی۔

انھوں نے کہا کہ اعداد و شمار کے مطابق، صرف رمضان کے ایک مہینے کے دوران حملوں کے علاوہ صرف افغان سیکیورٹی فورسز پر ایک سو سے زیادہ حملے ہوئے جن میں کافی لوگ مارے گئے اور امریکی فوجوں نے کئی بار افغان فوجیوں کو بچانے کے لئے مداخلت کی۔ تصور کیا جاسکتا ہے کہ امریکی فوجوں کے وہاں سے نکلنے کے بعد کیا صورت بنے گی اور پھر وہاں طالبان کا راستہ روکنے والا کون ہو گا؟

امریکہ کا شروع ہی سے موقف رہا ہے کہ وہ افغان سیکیورٹی فورسز کی تنظیم نو، تربیت اور افغانستان کی تعمیر نو کے بعد وہاں سے نکل آئے گا اور امریکی صدور اپنے اپنے ادوار میں اسی موقف کا اعادہ کرتے رہے ہیں۔