افغانستان 88 ’خطرناک‘ قیدیوں کو رہا نہ کرے: امریکی حکام

افغانستان میں تعینات امریکی افواج کے ایک ترجمان کے بقول بگرام میں قید افراد میں سے 40 فیصد براہ راست 57 افغان شہریوں اور سکیورٹی فورسز کو ہلاک یا زخمی کرنے کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔
امریکی حکام نے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں افغان حکومت ایسے درجنوں قیدیوں کو رہا نہ کرے جو ان کے بقول سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔

بدھ کو افغانستان میں تعینات امریکی افواج کے ایک ترجمان کرنل ڈیو لاپان نے کہا کہ 88 قیدیوں کی رہائی کے لیے صدارتی حکم نامہ جیل میں قیدیوں سے تفتیش مکمل کرنے کے عمل کے خلاف ہے۔

’’افغانستان کے نظرثانی بورڈ نے اپنی حدود سے تجاوز کیا اور ایسے متعدد خطرناک افراد کی رہائی کا حکم دیا جو نہ صرف (سلامتی) کے لیے خطرہ ہیں بلکہ ان کے خلاف مزید تفتیش اور مقدمے کے لیے ٹھوس شواہد بھی موجود ہیں۔‘‘

امریکہ نے اپنے زیر انتظام بگرام جیل کا انتظام 2013ء کے اوائل میں افغانستان کو منتقل کیا تھا لیکن اس سے پہلے اس منتقلی کے لیے وہ اس خدشے کی بنا پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتا رہا ہے کہ اس قید خانے میں موجود خطرناک قیدیوں کو رہا کر دیا جائے گا۔

ترجمان کے بقول یہاں قید افراد میں سے 40 فیصد براہ راست 57 افغان شہریوں اور سکیورٹی فورسز کو ہلاک یا زخمی کرنے کے براہ راست ذمہ دار ہیں جب کہ 30 فیصد قیدی امریکی اور اتحادی افواج کے 60 اہلکاروں پر ہونے والے ہلاکت خیز حملوں میں براہ راست ملوث ہیں۔

افغان کمیشن نے ان الزامات کو مسترد کردیا کہ یہ 88 قیدی کسی بھی طرح سے سلامتی کے لیے خطرہ ہو سکتے ہیں۔

عبدالشکور داد رس کا کہنا تھا کہ ’’ بہت سے واقعات میں زیر حراست لوگوں کو غلطی سے بعض واقعات میں ملوث کیا گیا۔‘‘

امریکہ اور افغانستان کے درمیان تعلقات حالیہ ہفتوں میں ایک بار پھر تلخی کا شکار ہیں جس کی ایک بڑی وجہ دوطرفہ مجوزہ سکیورٹی معاہدہ ہے جس پر صدر حامد کرزئی نے تاحال دستخط نہیں کیے۔

اس معاہدے کے تحت 2014ء میں افغانستان میں بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد ملک میں امریکی فوجیوں کی موجودگی ممکن ہوسکے گی۔