افغان سرکاری ملازمین کی ہلاکتوں میں سات سو فیصد اضافہ

(فائل فوٹو)

رپورٹ میں سال 2012 میں 81 فیصد شہری ہلاکتوں کی ذمہ داری شدت پسندوں پر عائد کی ہے جب کہ آٹھ فیصد لوگ افغان اور نیٹو فورسز کی کارروائیوں میں مارے گئے۔
افغانستان میں شدت پسندوں کے حملوں میں سرکاری ملازمین کی ہلاکتوں میں گزشتہ سال سات سو فیصد دیکھنے میں آیا جب کہ عام شہریوں کی ہلاکتوں میں گزشتہ سال چھ کے مقابلے میں پہلی بار کمی واقع ہوئی۔

یہ انکشاف اقوام متحدہ کے مشن برائے افغانستان کی جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال ایسے پرتشدد واقعات میں سرکار کے لیے کام کرنے والے 2754 افراد مارے گئے۔ مشن نے ان ہلاکتوں میں جولائی اور دسمبر میں محکمہ خواتین کی سربراہ اور نائب سربراہ کی ہلاکت کو خاص طور پر ’’پریشان کن‘‘ قرار دیا ہے۔

رپورٹ میں سال 2012 میں 81 فیصد شہری ہلاکتوں کی ذمہ داری شدت پسندوں پر عائد کی ہے جب کہ آٹھ فیصد لوگ افغان اور نیٹو فورسز کی کارروائیوں میں مارے گئے۔ بقیہ 11 فیصد ہلاکتوں کی الزام کسی کے حصے میں نہیں آیا۔

اس تازہ جائزے کے مطابق حکومت کی حامی اور اتحادی فورسز کی کارروائیوں میں ہونے والی ہلاکتوں میں گزشتہ سال 40 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

افغانستان میں 2001ء سے امریکہ اور اس کی اتحادی افواج القاعدہ اور طالبان شدت پسندوں کے خلاف جنگ میں مصروف رہی ہیں اور آئندہ برس کے اختتام تک ایک منصوبے کے تحت بین الاقوامی افواج اپنا لڑاکا مشن ختم کرکے اپنے وطن واپس چلی جائیں گی۔

غیر ملکی افواج ملک میں سلامتی کی ذمہ داریاں بتدریج مقامی پولیس اور فوج کو منتقل کر رہی ہیں لیکن حالیہ مہینوں میں شدت پسندوں کے حملوں میں اضافے کے تناظر میں اس منتقلی اور افغان فورسز کی استعداد کار پر مبصرین تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔