افغان مصالحتی عمل کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد ایک طرف پراعتماد دکھائی دیتے ہیں کہ اگر طالبان اپنے حصے کا کردار ادا کریں تو جلد کسی امن معاہدے کو حتمی شکل دی جا سکتی ہے، دوسری طرف امریکہ کے وزیرخارجہ مائیک پومپیو کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ سال 2020 کے صدارتی انتخاب سے پہلے افغانستان میں فوجوں کی تعداد میں کمی کی ہدایت کر رہے ہیں۔ ان حالات میں کیا یہ تاثر لیا جا سکتا ہے کہ افغان امن عمل میں بات چیت درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے اور جنگ بندی بھی ممکنہ پیش رفت کا حصہ ہو سکتی ہے؟
افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے بدھ کو اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد وہ افغانستان کا اہم ترین دورہ مکمل کر کے دوحہ روانہ ہو رہے ہیں۔
زلمے خلیل زاد کے مطابق افغانستان اور امریکہ کے درمیان آئندہ مراحل پر اتفاق ہو گیا ہے اور اگر دوحہ میں طالبان نے اپنے حصے کا کردار ادا کیا تو ہم بھی اپنے حصے کا کردار ادا کریں گے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ افغانستان اور امریکہ آئندہ مراحل پر متفق ہو گئے ہیں اور مذاکراتی ٹیم اور تکنیکی معاونت کے گروپوں کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔
گزشتہ روز وزیرخارجہ مائیک پومپئو نے کہا تھا کہ صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ سال 202 کے صدارتی انتخابات سے پہلے افغانستان سے امریکی فوجوں کی تعداد کو مزید کم کیا جائے۔
افغان طالبان کا ہمیشہ سے مطالبہ رہا ہے کہ کسی بھی مفاہمت سے پہلے امریکی اور غیرملکی افواج کا افغانستان سے انخلا ہو اور افغانستان میں انتخابات سے پہلے آئین میں ردوبدل کیا جائے۔ کیا امریکی فوجوں کی تعداد میں کمی یا مکمل انخلا طالبان کے لیے حوصلہ افزا ہو سکتا ہے؟
واشنگٹن میں قائم سٹریٹجی ایڈوائزری فرم پولی ٹیکٹ سے وابستہ عارف انصار اور افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مومند دونوں سمجھتے ہیں کہ یہ ایک اہم پیش رفت ہو گی جس سے طالبان کا دیرینہ مطالبہ پورا ہو جائے گا۔ تاہم دونوں تجزیہ کاروں کے خیال میں افغان امن عمل میں بڑی مشکل یہ ہے کہ آیا ستمبر کے صدارتی انتخابات ہونے دیے جائیں یا اس سے پہلے کسی ماڈل پر تمام فریقوں کو یکجا کیا جائے۔
رستم شاہ مومند کے الفاظ میں، ’’ گورننس کے نظام پر اتفاق رائے ہو۔ حکومت کس کی بنے۔ عبوری حکومت میں کون ہو۔ اس کا دورانیہ کیا ہو۔ اس کا مینڈیٹ کیا ہو؟ یہ سب متنازعہ مسائل ہیں۔ ان پر سب سے پہلے اتفاق پیدا کرنا ہو گا۔‘‘
رستم شاہ مومند کے خیال میں فوجوں کے انخلا کا آغاز طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ بیٹھنے کا جواز فراہم کر سکتا ہے۔ معاملے کے اصل فریق طالبان، کابل حکومت اور امریکہ ہیں۔ پاکستان بس سہولت کار ہے۔
اگر افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے پراعتماد ہیں، سہولت کار پاکستان بھی بتا رہا ہے کہ امن عمل مثبت سمت بڑھ رہا ہے، امریکہ بھی بظاہر طالبان کے بنیادی مطالبات کو اہمیت دیتا نظر آتا ہے تو پھر جنگ بندی کیوں نہیں ہو جاتی؟ وہ بھی ایسے وقت میں جب اقوام متحدہ کے مطابق اتحادی افواج اور طالبان دونوں اطراف سے ہونے والی کاروائیوں میں عام شہریوں کی ہلاکتیں جاری ہیں۔
جنگ بندی کے امکانات کے بارے میں تجزیہ کار عارف انصار کہتے ہیں۔
’’دونوں فریقوں کی طرف سے ایک وسیع تر فریم ورک پر اتفاق نہ ہو پائے تو جنگ بندی نہیں ہو سکے گی۔ اس وقت اعتماد سازی کے اقدامات کی ضرورت ہے۔‘‘
رستم شاہ مومند کے مطابق گوریلا جنگوں میں جنگ بندی نہیں ہوتی۔ طالبان کسی حتمی معاہدے سے پہلے جنگ بندی قبول نہیں کریں گے۔
’’ وہ (طالبان) کہتے ہیں جب بھی جنگ بندی ہوتی ہے تو ان کے لوگوں کے جوش و جذبے میں کمی آ جاتی ہے۔ مذاکرات کے ناکام ہونے کی صورت میں لوگوں کو دوبارہ لڑنے کے لیے باہر نکالنا آسان کام نہیں ہے۔ دوسری بات وہ یہ کہتے ہیں اگر ہم نے سیز فائر پر اتفاق کر لیا تو ہمارے اندر بہت سے لوگ اس کی مخالفت کریں گے اور طالبان کی تحریک تقسیم ہو جائے گی۔ تیسری بات یہ بھی کرتے ہیں کہ یہ جنگ بندی امریکہ کی طرف سے ایک چال نہ ہو، کہیں سیز فائر کا جھانسہ دیگر کر طالبان تحریک کو تو کمزور کرنا مقصد نہیں ہے‘‘۔
البتہ وہ کہتے ہیں کہ مرحلہ وار جنگ بندی کی ایک صورت ہو سکتی ہے۔
’’ہو سکتا ہے کہ جہاں جہاں سے نیٹو اور امریکی فوج نکلے وہاں جنگ بندی ہو جائے، ایک جگہ پھر دوسری جگہ‘‘۔
سال 2019 کی پہلی ششماہی میں، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق نیٹو اور افغان فوج کے حملوں میں مجوعی طور پر 717 عام شہری ہلاک ہوئے، جب کہ طالبان کی کاررائیوں میں 531 شہری مارے گئے۔ 2446 زخمی ہوئے جب کہ ایک لاکھ افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگست کے اختتام تک افغان امن عمل میں قابل ذکر پیش رفت ہو سکتی ہے۔