امن ہمارے اور طالبان دونوں ہی کے مفاد میں ہے: افغان صدر

افغان صدر اشرف غنی (فائل فوٹو)

افغان صدر نے اپنے خطاب میں دعویٰ کیا کہ شدت پسند گروپ داعش افغانستان میں پسپا ہو رہا ہے۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ مذاکرات میں شامل ہوں کیونکہ امن ہی سب کے مفاد میں ہے۔

اتوار کو افغان پارلیمان کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے لیے اب یہ "امتحان ہے کہ وہ جنگ یا امن میں سے کس کا انتخاب کرتے ہیں۔"

افغان صدر کا بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ہفتہ کو ہی طالبان کی طرف سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنی شرائط کی منظوری تک افغان حکومت سے براہ راست مذاکرات کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔

طالبان ملک سے بین الاقوامی افواج کے مکمل انخلا اور اپنے ساتھیوں کی رہائی جیسے مطالبات کرتے آئے ہیں۔

پاکستان، افغانستان، امریکہ اور چین کے نمائندوں پر مشتمل چار فریقی گروپ نے مصالحتی عمل کی بحالی کے لیے چار مشاورتی اجلاس کیے ہیں اور توقع کی جا رہی تھی کہ آئندہ ہفتے افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں میں براہ راست بات چیت شروع ہو سکے گی۔

افغان صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ امن ہمارے اور طالبان دونوں ہی کے مفاد میں ہے اور "حقیقی امن خفیہ طریقے سے قائم نہیں ہو سکتا۔"

سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر اے زیڈ ہلالی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مصالحتی عمل کی بحالی کی کوششوں حوصلہ افزا رہی ہیں اور تمام فریقین کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ کسی بھی طرح کی رکاوٹ کو اس میں حائل نہ ہونے دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ "اگر اس موقع پر تعطل مزید طوالت اختیار کرتا ہے تو یہ پاکستان، امریکہ، افغانستان اور چین کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہو گا۔"

مزید برآں افغان صدر نے اپنے خطاب میں دعویٰ کیا کہ شدت پسند گروپ داعش افغانستان میں پسپا ہو رہا ہے۔

"ہم یہ فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ آج افغانستان واحد ملک ہے جہاں داعش پسپا ہو رہا ہے۔ وہ ننگرہار سے پسپا ہو رہا ہے اور افغانستان اس کا قبرستان ثابت ہو گا۔"

داعش نے گزشتہ سال مشرقی افغانستان میں اپنے قدم جمانا شروع کیے تھے لیکن اسے افغان فورسز کے علاوہ طالبان کی طرف سے بھی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔