طالبان کے ساتھ مصالحت کی جو بھی کوششیں کی گئی ہیں ان کی ناکامی کی ایک وجہ اس ضمن میں امریکہ کی غیر واضح پالیسی بھی ہے۔
افغانستان میں سرگرم عمل طالبان کے سیاسی دھڑے کی عدم موجودگی امن و مفاہمت کے عمل میں ایک بڑی رکاوٹ بن رہی ہے۔
پاکستانی پارلیمان کے ایوانِ بالا کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ اُمور کے چیئرمین سینیٹر حاجی محمد عدیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومتِ پاکستان طالبان کے ساتھ بات چیت کی کوششوں میں ہر ممکن کردار ادا کر رہی ہے کیوں کہ افغانستان میں پائیدار امن ہی ملک کے مفاد میں ہے۔
’’دنیا بھر میں چلنے والی (اس نوعیت کی) تحریکوں کا عام طور پر ایک لڑاکا دھڑا ہوتا ہے جو لڑتا ہے اور دوسرا سیاسی دھڑا ہوتا ہے جو بات کرتا ہے ... بد قسمتی سے طالبان کا کوئی سیاسی دھڑا نہیں ہے (کیوں کہ) وہ بات چیت پر یقین نہیں رکھتے، یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔‘‘
عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر حاجی محمد عدیل کا کہنا تھا کہ اب تک افغانستان میں طالبان کے ساتھ مصالحت کی جو بھی کوششیں کی گئی ہیں ان کی ناکامی کی ایک وجہ اس ضمن میں امریکہ کی غیر واضح پالیسی بھی ہے۔
’’قطر میں امریکہ کی بات چیت ہوئی لیکن وہ ناکام رہی کیوں کہ اس حوالے سے خود صدر حامد کرزئی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، جب افغانستان کے مسئلے میں آپ افغانستان کو اعتماد میں نہیں لیں گے تو بات چیت کیسے کامیاب ہوگی۔‘‘
امریکی حکام اس تاثر کی نفی کرتے ہیں کہ رواں سال کے اوائل میں خلیجی ریاست قطر میں طالبان عسکریت پسندوں کے نمائندوں سے ہونے والی ابتدائی بات چیت میں افغان حکومت کو صریحاً نظر انداز کیا گیا۔
مزید برآں حاجی محمد عدیل نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں جلد از جلد امن کا خواہاں ہے کیوں کہ گزشتہ ایک عشرے سے جاری دہشت گردی اور بدامنی سے وہ خود بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
’’ہمیں خوف ہے کہ اگر افغانستان میں امن نا آیا اور ایساف (اتحادی افواج) 2014ء تک نکل گئیں اور افغان نیشنل آرمی اور پولیس ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے قابل نا ہو سکیں تو یقیناً ایک طرف طالبان ہوں گے، دوسری طرف حکمت یار اور شمالی اتحاد کے وار لارڈز ہوں گے جو آپس میں لڑیں گے۔ یہ ایک ایسا آتش فشاں پھٹے گا کہ اس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے۔‘‘
شدت پسندوں کے سرحد پار حملوں کے معاملے پر اسلام آباد اور کابل حکومتوں کی ایک دوسرے پر حالیہ الزام تراشی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سینیٹر حاجی عدیل نے کہا کہ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے جنگجو شمالی وزیرستان میں سرگرم عمل ہیں جب کہ سوات اور دیگر علاقوں سے فرار ہونے والے جنگجوؤں بشمول کمانڈر فضل اللہ نے افغان کے مشرقی کُنڑ اور نورستان صوبوں میں پناہ لے رکھی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس معاملے کو مل بیٹھ کر حل کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ خطہ پاک افغان سرحد پر کشیدگی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
پاکستانی پارلیمان کے ایوانِ بالا کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ اُمور کے چیئرمین سینیٹر حاجی محمد عدیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومتِ پاکستان طالبان کے ساتھ بات چیت کی کوششوں میں ہر ممکن کردار ادا کر رہی ہے کیوں کہ افغانستان میں پائیدار امن ہی ملک کے مفاد میں ہے۔
’’دنیا بھر میں چلنے والی (اس نوعیت کی) تحریکوں کا عام طور پر ایک لڑاکا دھڑا ہوتا ہے جو لڑتا ہے اور دوسرا سیاسی دھڑا ہوتا ہے جو بات کرتا ہے ... بد قسمتی سے طالبان کا کوئی سیاسی دھڑا نہیں ہے (کیوں کہ) وہ بات چیت پر یقین نہیں رکھتے، یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔‘‘
عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر حاجی محمد عدیل کا کہنا تھا کہ اب تک افغانستان میں طالبان کے ساتھ مصالحت کی جو بھی کوششیں کی گئی ہیں ان کی ناکامی کی ایک وجہ اس ضمن میں امریکہ کی غیر واضح پالیسی بھی ہے۔
’’قطر میں امریکہ کی بات چیت ہوئی لیکن وہ ناکام رہی کیوں کہ اس حوالے سے خود صدر حامد کرزئی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، جب افغانستان کے مسئلے میں آپ افغانستان کو اعتماد میں نہیں لیں گے تو بات چیت کیسے کامیاب ہوگی۔‘‘
امریکی حکام اس تاثر کی نفی کرتے ہیں کہ رواں سال کے اوائل میں خلیجی ریاست قطر میں طالبان عسکریت پسندوں کے نمائندوں سے ہونے والی ابتدائی بات چیت میں افغان حکومت کو صریحاً نظر انداز کیا گیا۔
مزید برآں حاجی محمد عدیل نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں جلد از جلد امن کا خواہاں ہے کیوں کہ گزشتہ ایک عشرے سے جاری دہشت گردی اور بدامنی سے وہ خود بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
شدت پسندوں کے سرحد پار حملوں کے معاملے پر اسلام آباد اور کابل حکومتوں کی ایک دوسرے پر حالیہ الزام تراشی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سینیٹر حاجی عدیل نے کہا کہ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے جنگجو شمالی وزیرستان میں سرگرم عمل ہیں جب کہ سوات اور دیگر علاقوں سے فرار ہونے والے جنگجوؤں بشمول کمانڈر فضل اللہ نے افغان کے مشرقی کُنڑ اور نورستان صوبوں میں پناہ لے رکھی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس معاملے کو مل بیٹھ کر حل کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ خطہ پاک افغان سرحد پر کشیدگی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔