افغانستان کے جنوبی صوبہ ہلمند میں مذہبی رہنماؤں کے ایک اجلاس پر حملے میں کم ازکم سات افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
حکامکا کہنا ہے کہ صوبہ ہلمند کے مرکزی شہر لشکر گاہ میں علما کونسل کا اجلاس جاری تھا کہ دو حملہ آوروں نے وہاں اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔
مرنے والوں میں چار عام شہری اور تین پولیس اہلکار بتائے جاتے ہیں جب کہ حملے میں سات افراد زخمی بھی ہوئے۔
حکام کے مطابق حملہ آوروں میں سے ایک پولیس کی جوابی فائرنگ سے مارا گیا جب کہ دوسرے کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ آخری موصولہ اطلاعات تک جاری تھا۔
علما کونسل ملک کے جید علما پر مشتمل ایک تنظیم ہے جو کہ تواتر سے طالبان عسکریت پسندوں سے نبرد آزما افغان سکیورٹی فورسز کی حمایت کا اعلان کرتی رہی ہے۔
طالبان نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
گزشتہ ماہ ہی طالبان نے 'عزم' کے نام سے اپنی تازہ پرتشدد کارروائیاں شروع کرنے کا اعلان کیا تھا اور حالیہ دنوں میں ان کی طرف سے مختلف علاقوں میں ہلاکت خیز حملے کیے جا چکے ہیں۔
گزشتہ سال اقتدار سبنھالنے کے بعد سے صدر اشرف غنی متعدد بار طالبان سے افغانستان کے آئین کو تسلیم کرتے ہوئے قومی دھارے میں آنے کا کہہ چکے ہیں لیکن شدت پسندوں کا کہنا ہے کہ جب تک ملک میں ایک بھی بین الاقوامی فوجی موجود ہے وہ حکومت سے بات نہیں کریں گے۔
گزشتہ دسمبر میں افغانستان سے تقریباً 13 سال بعد لڑاکا مشن مکمل کر کے بیشتر بین الاقوامی افواج اپنے وطن واپس جا چکی ہیں اور اب صرف ایک معاہدے کے تحت لگ بھگ 12000 نیٹو فوجی ملک میں موجود ہیں جن میں اکثریت امریکی فوجیوں کی ہے۔
یہ فوجی مقامی سکیورٹی فورسز کو تربیت اور انسداد دہشت گردی میں معاونت کے لیے یہاں موجود ہیں۔