افغانستان کے پکتیا صوبے کے علاقے داندے پٹن میں افغان سرحدی چوکیوں پر طالبان حملے کے نتیجے میں افغان سیکیورٹی فورسز کے کم از کم 14 اہل کار ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔ طالبان نے حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔
افغانستان کی وزارت دفاع نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ جوابی کاروائی سے طالبان کو بھی بھاری جانی نقصان کا ہوا اور حملے کو پسپا کر دیا گیا ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ ان کے دو ارکان ہلاک ہوئے ہیں، جب کہ طالبان نے سیکیورٹی فورسز کے ایک اہل کار کو پکڑ لیا ہے۔
قبل ازیں اسی ہفتے، شمالی صوبے پروان اور مغربی صوبے فرح میں حملے کئے تھے جن میں 14 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
یہ حملے ایک ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا عمل سست روی سے جاری رہا ہے۔
عیدالفطر کے موقع پر تین روز تک جاری رہنے والی فائر بندی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ طالبان نے افغان سیکیورٹی افواج پر حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔
اسی دوران افغان قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل نے کہا ہے کہ اکا دکا حملوں کے باوجود فائر بندی جاری ہے۔ اور دوحہ میں مقیم طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ طالبان نے جمعرات کے روز افغان سیکیورٹی فورس کے 80 قیدیوں کو رہا کر دیا ہے۔
توقع کی جا رہی تھی کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں سال 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طے پانے والے معاہدے کے تحت طالبان پر عائد تعزیرات اٹھانے کے معاملے پر آج یعنی 29 مئی کو ووٹنگ ہو گی، لیکن افغانستان سے متعلق روس کے خصوصی نمائندے ضمیر کابلوف کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ فی الحال سلامتی کونسل کے سامنے نہیں رکھا جائے گا، کیونکہ ان کے بقول دوحہ معاہدے کی بعض شرائط پر ابھی عمل ہونا باقی ہے۔
ترکی کی اناطولیہ نیوز ایجنسی سے ایک انٹرویو میں ضمیر کابلوف نے کہا کہ طالبان کے خلاف عائد پابندیاں اس شرط پر 29 مئی سے پہلے اٹھائی جانی تھیں، اگر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے بعد 10 مارچ کو بین الافغان مذاکرات شروع ہو گئے ہوتے، لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا۔
اِدھر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز افغانستان سے امریکی افواج کے جلد انخلا کا ایک بار پھر ذکر کیا۔
اپنی ایک ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ہم افغانستان میں لڑاکا فورس کی طرح نہیں بلکہ پولیس فورس کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو ایسی کارروائی کی جائے گی جو پہلے کبھی نہ کی گئی ہو۔
منگل کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ افغانستان میں فوجیوں کی تعداد فوری طور پر گھٹا کر 7 ہزار کر دی جائے گی۔