کابل میں شیعہ مسلک کی مسجد پر داعش کا خودکش حملہ، 32ہلاک

اسلامک اسٹیٹ نے پیر کے روز افغان دارالحکومت کابل میں ایک شیعہ مسجد پر خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعوی کیا ہے۔ اس حملے میں کم ازکم 32 افراد ہلاک اور 80 سے زیادہ زخمی ہوئے

خودکش حملہ آور ایک ایسے وقت میں مسجد باقر العلم میں داخل ہو ا جب وہاں ایک مذہی اجتماع ہو رہا ہے اور اس نے اپنے جسم سے بندھے ہوئے باردوی مواد کو دھماکے سے اڑا دیا۔

ہلاک ہونے والوں میں حملہ آور بھی شامل ہے۔

کابل میں جرائم کی تحقیقات کے محکمے کے سربراہ جنرل فریدون عیبدی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہلا ک اور زخمی ہونے والے تمام عام شہری تھے۔

اسلامک اسٹیٹ کی جانب سے میڈیا کے لیے جاری ہونے والے ایک مختصر بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ مہلک حملہ ان کے گروپ نے کیا ہے۔

صدر اشرف غنی نے اس خودکش بم دھماکے کو "ناقابل فراموش" قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ افغانستان کے دشمنوں کی کارروائی ہے جو افغانوں میں تفریق پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ "اس میں ایک مقدس مقام پر معصوم شہریوں بشمول بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ ایک جنگی جرم اور اسلام کے منافی عمل ہے۔"

پاکستان کی حکومت نے کابل میں ایک شیعہ عبادت گاہ پر خود کش حملے کی مذمت کرتے ہوئے متاٖثرہ خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار اور زخمی ہونے والوں کی جلد صحت یابی کی دعا کی ہے۔

پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں دہشت گردی کی ہر قسم کی مذمت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا گیا ہےکہ وہ اس کے خاتمے کے لیے اپنی کوششیں اور تعاون جاری رکھنے کے عزم پر قائم ہے۔

طالبان نے ذرائع ابلاغ کو بھیجے گئے ایک مختصر بیان میں اس واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم "ایمنسٹی انٹرنیشنل" نے اسے شہریوں پر ایک دانستہ اور وحشیانہ حملہ قرار دیتے ہوئے افغان عہدیداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے فوری طور پر تحقیقات کریں۔

لندن میں قائم اس تنظیم نے ایک بیان میں کہا کہ "(عہدیداروں کا) یہ فرض ہے کہ وہ شیعہ مسلمانوں کو حملوں سے بچانے کے لیے موثر اقدام کریں اور ماضی میں اس برادری کے خلاف ہونے والی زیادتیوں میں استثنیٰ کو ختم کریں۔"

افغانستان میں حالیہ مہینوں میں شیعہ برادری پر ہونے والے حملوں کی ذمہ داری شدت پسند گروپ داعش قبول کرتا رہا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں موجود اس گروپ نے گزشتہ سال سے افغانستان میں بھی اپنے قدم جمانا شروع کیے اور رواں برس جولائی میں کابل میں ہزارہ برادری کے ایک بڑے مظاہرے کے قریب ہونے والے بم حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی جس میں 80 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔