خود مختار الیکشن کمیشن کے ترجمان نور محمد نور نے کابل سے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ نیشنل آرمی کو انتخابات اور امیدواروں کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کا کہا گیا ہے۔
اسلام آباد —
ایک اہم افغان صدارتی امیدوار عبداللہ عبداللہ پر جمعہ کو ہونے والے ناکام قاتلانہ حملے کے تناظر میں الیکشن کمیشن نے نیشنل آرمی اور متعلقہ اداروں کو 14 جون کو انتخابات کے حتمی مرحلے کے لیے سخت حفاظتی اقدامات کرنے کا کہا ہے۔
افغانستان کے خود مختار الیکشن کمیشن کے ترجمان نور محمد نور نے کابل سے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ نیشنل آرمی کو ایک اجلاس میں سکیورٹی کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ انتخابات اور امیدواروں کی سکیورٹی ان کی ذمہ داری ہے اور اسے ہر صورت یقینی بنایا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ افغان آرمی کی طرف سے یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا گیا کہ دونوں صدارتی امیدواروں سے رابطہ رکھتے ہوئے انہیں سکیورٹی فراہم کرنے کی حتی الوسع کوشش کی جارہی ہے۔
طالبان عسکریت پسندوں کی طرف سے لاحق سلامتی کے خطرات کے باوجود الیکشن کمیشن کے ترجمان کا کہنا تھا کہ انتخابات کے پہلے مرحلے کی طرح آئندہ ہفتے ہونے والے مرحلے میں بھی لوگ بڑی تعداد میں شرکت کریں گے۔
’’ہم 21 ویں صدی میں رہ رہے ہیں پس حکومتیں ہر حال میں لوگ ہی منتخب کریں اور یہ چیز افغان عوام کے لیے بھی اہمیت رکھتی ہے۔ وہ اپنے مستقبل کا انتخاب کر رہے ہیں۔ وہ اپنی حکومت منتخب کررہے ہیں۔ پس انہیں معلوم ہے کہ ان کے ووٹ کی ملک کے مستقبل کے لیے کیا اہمیت ہے اور وہ بدامنی کی صورتحال سے بھی باخبر ہیں۔‘‘
اپریل میں صدارتی انتخابات میں شدت پسندوں کی دھمکیوں کے باوجود افغان عوام کی شرکت 60 فیصد سے زائد رہی جسے عالمی سطح پر سراہا گیا۔ تاہم جمعہ کو عبداللہ عبداللہ ایک قاتلانہ حملے سے اس وقت بال بال بچ گئے جب اس ہوٹل کے باہر دو بم دھماکے ہوئے جہاں سے وہ ایک اجتماع سے خطاب کے بعد واپس جا رہے تھے۔
الیکشن کمیشن کے ترجمان کا کہنا تھا کہ کمیشن چاہتا ہے کہ پاکستان بھی پہلے مرحلے کی طرح سرحد کی حفاظت کے لیے اقدامات کرے تاکہ یہ مرحلہ بھی پر امن انداز میں مکمل ہو سکے۔
ادھر خیبرپختونخواہ کے گورنر سردار مہتاب خان عباسی نے شمالی وزیرستان کے اہم قبائلی عمائدین پر مشتمل ایک وفد سے مذاکرات کرتے ہوئے انہیں آئندہ 15 دنوں میں علاقے میں قیام امن اور سلامتی کے خدشات کو دور کرنے کے لیے موثر اقدامات کریں۔
’’اس قوم کو اب امن چاہیئے اور ہر قیمت پر چاہیئے۔ ہم نے بہت وقت ضائع کر دیا ہے جو فیصلے چند سال پہلے ہونے تھے اگر وہ ہمارے سر پر آ گئے ہیں تو ہمیں بھی فیصلے کرنے ہیں۔ یہ بات واضح کردی ہے۔ ہم نے انہیں کہا کہ حکومت ان کے ساتھ ہے ریاست و عوام ان کے ساتھ ہے۔ اب کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
شمالی وزیرستان القاعدہ سے منسلک عسکریت پسندوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ امریکی اور افغان عہدیدار کہتے آئے ہیں کہ یہاں روپوش عسکریت پسند سرحد پار مہلک کارروائیوں کرتے ہیں۔
پاکستان نے پہلی مرتبہ وزیراعظم نواز شریف کے دور میں حال ہی میں شمالی وزیرستان میں حال میں فضائی کارروائی کی جس میں درجنوں شدت پسند مارے گئے۔ اس سے پہلے اسلحہ سے لیس امریکی ڈرون وہاں عسکریت پسندوں کو نشانہ بناتے رہے جنھیں رواں سال معطل کردیا گیا۔
افغانستان کے خود مختار الیکشن کمیشن کے ترجمان نور محمد نور نے کابل سے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ نیشنل آرمی کو ایک اجلاس میں سکیورٹی کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ انتخابات اور امیدواروں کی سکیورٹی ان کی ذمہ داری ہے اور اسے ہر صورت یقینی بنایا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ افغان آرمی کی طرف سے یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا گیا کہ دونوں صدارتی امیدواروں سے رابطہ رکھتے ہوئے انہیں سکیورٹی فراہم کرنے کی حتی الوسع کوشش کی جارہی ہے۔
طالبان عسکریت پسندوں کی طرف سے لاحق سلامتی کے خطرات کے باوجود الیکشن کمیشن کے ترجمان کا کہنا تھا کہ انتخابات کے پہلے مرحلے کی طرح آئندہ ہفتے ہونے والے مرحلے میں بھی لوگ بڑی تعداد میں شرکت کریں گے۔
’’ہم 21 ویں صدی میں رہ رہے ہیں پس حکومتیں ہر حال میں لوگ ہی منتخب کریں اور یہ چیز افغان عوام کے لیے بھی اہمیت رکھتی ہے۔ وہ اپنے مستقبل کا انتخاب کر رہے ہیں۔ وہ اپنی حکومت منتخب کررہے ہیں۔ پس انہیں معلوم ہے کہ ان کے ووٹ کی ملک کے مستقبل کے لیے کیا اہمیت ہے اور وہ بدامنی کی صورتحال سے بھی باخبر ہیں۔‘‘
اپریل میں صدارتی انتخابات میں شدت پسندوں کی دھمکیوں کے باوجود افغان عوام کی شرکت 60 فیصد سے زائد رہی جسے عالمی سطح پر سراہا گیا۔ تاہم جمعہ کو عبداللہ عبداللہ ایک قاتلانہ حملے سے اس وقت بال بال بچ گئے جب اس ہوٹل کے باہر دو بم دھماکے ہوئے جہاں سے وہ ایک اجتماع سے خطاب کے بعد واپس جا رہے تھے۔
الیکشن کمیشن کے ترجمان کا کہنا تھا کہ کمیشن چاہتا ہے کہ پاکستان بھی پہلے مرحلے کی طرح سرحد کی حفاظت کے لیے اقدامات کرے تاکہ یہ مرحلہ بھی پر امن انداز میں مکمل ہو سکے۔
ادھر خیبرپختونخواہ کے گورنر سردار مہتاب خان عباسی نے شمالی وزیرستان کے اہم قبائلی عمائدین پر مشتمل ایک وفد سے مذاکرات کرتے ہوئے انہیں آئندہ 15 دنوں میں علاقے میں قیام امن اور سلامتی کے خدشات کو دور کرنے کے لیے موثر اقدامات کریں۔
’’اس قوم کو اب امن چاہیئے اور ہر قیمت پر چاہیئے۔ ہم نے بہت وقت ضائع کر دیا ہے جو فیصلے چند سال پہلے ہونے تھے اگر وہ ہمارے سر پر آ گئے ہیں تو ہمیں بھی فیصلے کرنے ہیں۔ یہ بات واضح کردی ہے۔ ہم نے انہیں کہا کہ حکومت ان کے ساتھ ہے ریاست و عوام ان کے ساتھ ہے۔ اب کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
شمالی وزیرستان القاعدہ سے منسلک عسکریت پسندوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ امریکی اور افغان عہدیدار کہتے آئے ہیں کہ یہاں روپوش عسکریت پسند سرحد پار مہلک کارروائیوں کرتے ہیں۔
پاکستان نے پہلی مرتبہ وزیراعظم نواز شریف کے دور میں حال ہی میں شمالی وزیرستان میں حال میں فضائی کارروائی کی جس میں درجنوں شدت پسند مارے گئے۔ اس سے پہلے اسلحہ سے لیس امریکی ڈرون وہاں عسکریت پسندوں کو نشانہ بناتے رہے جنھیں رواں سال معطل کردیا گیا۔