افغانستان میں حکام نے کہا ہے کہ وہ ایک مقامی انٹیلی جنس افسر کو تلاش کر رہے ہیں جس پر شبہ ہے کہ اُس نے کابل میں وزارتِ داخلہ کے کمانڈ سینٹر میں دو امریکی افسران کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
پچیس سالہ انٹیلی جنس افسر کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اُس نے تعلیم پاکستان میں حاصل کی تھی۔
کرنل اور میجر عہدے کے امریکی افسروں کی ہلاکت ایسے وقت ہوئی جب بگرام ایئر بیس پر قرآن کی بے حرمتی کے خلاف افغانستان کے مختلف شہروں میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔
چھ روز سے جاری احتجاجی مظاہروں کے دوران 30 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
افغان صدر حامد کرزئی نے اتوار کو ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب میں لوگوں سے پُر امن رہنے کی اپیل کو دہرایا ہے۔
’’اب جب کہ ہم اپنے جذبات کا اظہار کر چکے ہیں، پُر امن رہنے کا وقت آ گیا ہے۔‘‘
افغان وزارتوں میں تعینات اتحادی افواج کے اہلکاروں کو ہفتے کو پیش آنے والے واقعہ کے بعد کام بند کرنے کی ہدایت جاری کر دی گئی تھی۔
نیٹو کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ’’حفاظتی وجوہات‘‘ کی بنیاد پر کیا گیا۔
افغان طالبان نے وزارتِ داخلہ میں پیش آنے والے واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ حملہ قرآن کو نذر آتش کرنے کا انتقام تھا۔
امریکی صدر براک اوباما اور دیگر عہدے دار قرآن کی بے حرمتی پر معذرت کر چکے ہیں، لیکن اس کے باوجود افغانستان اور ہمسایہ ملک پاکستان میں اس واقعے کے خلاف احتجاج میں کوئی خاص کمی نہیں آئی ہے۔
بین الاقوامی اتحاد قرآن کی بے حرمتی کی جامع تحقیقات کر رہا ہے، تاہم اب تک اس بارے میں کوئی مفصل بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔