عبداللہ عبداللہ نے افغان الیکشن کمیشن کے ایک اعلیٰ عہدیدار ضیاء الحق امرخیل پر ووٹوں کی گنتی کے عمل کے دوران دھاندلی کروانے کا الزام عائد کیا تھا۔
افغانستان کے ایک صدارتی امیدوار عبداللہ عبداللہ نے افغان الیکشن کمیشن کے ایک عہدیدار کے استعفے کے بعد اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ وہ انتخابی عمل میں دوبارہ واپس آ سکتے ہیں۔
عبداللہ عبداللہ نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔
افغانستان میں 14 جون کو صدارتی انتخابات کے دوسرے اور حتمی مرحلے میں ووٹ ڈالے گئے جس میں عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کے درمیان مقابلہ تھا۔
عبداللہ عبداللہ نے افغان الیکشن کمیشن کے سیکرٹریٹ کے سربراہ ضیاء الحق امرخیل پر ووٹوں کی گنتی کے عمل کے دوران دھاندلی کروانے کا الزام عائد کیا تھا۔
امرخیل نے ان الزمات کو مسترد کر دیا لیکن عبداللہ کی پارٹی کی طرف سے مبینہ طور پر ان سے منسوب فون پر کی گئی گفتگو نشر ہونے کے بعد انہوں نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس گفتگو کے مطابق انہوں نے مبینہ طور پر عہدیداروں کو بیلٹ بکس بھرنے کا حکم دیا تھا۔
عبداللہ عبداللہ نے کہا " اب جبکہ اعلان (استعفیٰ کا ) ہو گیا ہے ---اب ہم الیکشن کمیشن کے ساتھ شرائط اور حالات کے بار ے میں بات چیت کرنے پر تیار ہیں جس سے اس (گنتی کے ) عمل میں مدد ملے گی"-
عبداللہ یہ کہہ چکے ہیں کہ" اس سے پہلے کہ وہ الیکشن کے عمل میں واپس آئیں چند شرائط پر بات چیت ضروری ہے جس میں ممکنہ طور پر چند حلقوں میں دوبارہ ووٹنگ کروانا بھی شامل ہے"۔
گزشتہ ہفتے ان کی طرف سے الیکشن کے بایئکاٹ کے اعلان کے بعد خطرہ تھا کہ زیادہ طاقت کے حصول کے لیے نسلی بنیادوں پر کھینچا تانی شروع ہو جائے گی- عبداللہ عبداللہ جو تاجک اور پشتون پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں ماضی میں طالبان مخالف ’شمالی اتحاد‘ کے ایک رہنما رہ چکے ہیں۔ ان کی حمایت تاجک برادری میں زیادہ ہے جبکہ ان کے مخالف امیدوار ورلڈ بینک کے ایک سابق عہدیدار اشرف غنی پشتون برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے دونوں کے حامیوں کے درمیان ایک مسلح تصادم بھی ہوا جبکہ عبداللہ عبداللہ کے درجنوں حامیوں نے خود مختار افغان الیکشن کمیشن کے سربراہ احمد یوسف نورستانی کے گھر کے باہر پیر کو مسلسل تیسرے روز بھی احتجاج جاری رکھا۔
نورستانی نے کہا کہ انہوں نے عہدیدار کو استعفیٰ دینے کے لیے نہیں کہا اور امرخیل نے خود کہا کہ مذکورہ آڈیو ریکارڈنگ جعلی ہے اور وہ صرف اعتماد کے بحالی کے لیے (عہدے سے) الگ ہو رہے ہیں۔
امر خیل نے کہا کہ " یہ جعلی ہے اور یہ عوامی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے بنائی گئی ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ " میں انتخابات پر یقین رکھتا ہوں، انصاف پر یقین رکھتا ہوں اور جمہوریت پر بھی یقین رکھتا ہوں"۔
افغانستان میں صدارتی انتخابات ایک ایسے وقت ہو رہے ہیں جب ملک سے غیر ملکی فوجیں اس سال کے اواخر میں واپس جانے کی تیاری کر رہی ہیں اور ملک کو مشکل اقتصادی صورت حال کے ساتھ ساتھ طالبان جنگجوؤں کی کارروائیوں کا بھی سامنا ہے۔
عبداللہ عبداللہ نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔
افغانستان میں 14 جون کو صدارتی انتخابات کے دوسرے اور حتمی مرحلے میں ووٹ ڈالے گئے جس میں عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کے درمیان مقابلہ تھا۔
عبداللہ عبداللہ نے افغان الیکشن کمیشن کے سیکرٹریٹ کے سربراہ ضیاء الحق امرخیل پر ووٹوں کی گنتی کے عمل کے دوران دھاندلی کروانے کا الزام عائد کیا تھا۔
امرخیل نے ان الزمات کو مسترد کر دیا لیکن عبداللہ کی پارٹی کی طرف سے مبینہ طور پر ان سے منسوب فون پر کی گئی گفتگو نشر ہونے کے بعد انہوں نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس گفتگو کے مطابق انہوں نے مبینہ طور پر عہدیداروں کو بیلٹ بکس بھرنے کا حکم دیا تھا۔
عبداللہ عبداللہ نے کہا " اب جبکہ اعلان (استعفیٰ کا ) ہو گیا ہے ---اب ہم الیکشن کمیشن کے ساتھ شرائط اور حالات کے بار ے میں بات چیت کرنے پر تیار ہیں جس سے اس (گنتی کے ) عمل میں مدد ملے گی"-
عبداللہ یہ کہہ چکے ہیں کہ" اس سے پہلے کہ وہ الیکشن کے عمل میں واپس آئیں چند شرائط پر بات چیت ضروری ہے جس میں ممکنہ طور پر چند حلقوں میں دوبارہ ووٹنگ کروانا بھی شامل ہے"۔
گزشتہ ہفتے ان کی طرف سے الیکشن کے بایئکاٹ کے اعلان کے بعد خطرہ تھا کہ زیادہ طاقت کے حصول کے لیے نسلی بنیادوں پر کھینچا تانی شروع ہو جائے گی- عبداللہ عبداللہ جو تاجک اور پشتون پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں ماضی میں طالبان مخالف ’شمالی اتحاد‘ کے ایک رہنما رہ چکے ہیں۔ ان کی حمایت تاجک برادری میں زیادہ ہے جبکہ ان کے مخالف امیدوار ورلڈ بینک کے ایک سابق عہدیدار اشرف غنی پشتون برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے دونوں کے حامیوں کے درمیان ایک مسلح تصادم بھی ہوا جبکہ عبداللہ عبداللہ کے درجنوں حامیوں نے خود مختار افغان الیکشن کمیشن کے سربراہ احمد یوسف نورستانی کے گھر کے باہر پیر کو مسلسل تیسرے روز بھی احتجاج جاری رکھا۔
نورستانی نے کہا کہ انہوں نے عہدیدار کو استعفیٰ دینے کے لیے نہیں کہا اور امرخیل نے خود کہا کہ مذکورہ آڈیو ریکارڈنگ جعلی ہے اور وہ صرف اعتماد کے بحالی کے لیے (عہدے سے) الگ ہو رہے ہیں۔
امر خیل نے کہا کہ " یہ جعلی ہے اور یہ عوامی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے بنائی گئی ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ " میں انتخابات پر یقین رکھتا ہوں، انصاف پر یقین رکھتا ہوں اور جمہوریت پر بھی یقین رکھتا ہوں"۔
افغانستان میں صدارتی انتخابات ایک ایسے وقت ہو رہے ہیں جب ملک سے غیر ملکی فوجیں اس سال کے اواخر میں واپس جانے کی تیاری کر رہی ہیں اور ملک کو مشکل اقتصادی صورت حال کے ساتھ ساتھ طالبان جنگجوؤں کی کارروائیوں کا بھی سامنا ہے۔