اقوام متحدہ نے پیر کے روز اعلان کیا کہ افغانستان میں گھر گھر پولیو ویکسینیشن مہم اگلے ماہ دوبارہ شروع ہو گی اور ادارے نے طالبان کی نئی حکومت کو اس طرح کی مہموں پر پابندی ہٹانے پر رضامند ہونے پر مبارکباد دی۔
افغانستان، پڑوسی ملک پاکستان کےساتھ دنیا کے ان دو ممالک میں سے ایک ہے جہاں پولیو کی انتہائی متعدی اور لاعلاج بیماری بچوں کو مسلسل اپاہج بنارہی ہے۔
اسلام آباد سے ایاز گل کی رپورٹ کے مطابق، دونوں ملکوں کے عہدے داروں نے 2021 میں اب تک پولیو وائرس ٹائپ 1 (ڈبلیو پی وی 1) کی انفیکشن کے صرف ایک ایک کیس کی رپورٹ دی ہے جو پاکستان اور افغانستان میں ایک ہی وقت میں دیکھی جانے والی سب سے کم ترین شرح ہے۔ گزشتہ سال پاکستان میں پولیو کے 84 اور افغانستان میں 56 کیس رپورٹ ہوئے۔
عالمی ادارہ صحت اور بچوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے، یونیسیف کے مطابق افغانستان میں آٹھ نومبر سے شروع ہونے والی گھرگھر انسداد پولیو مہم کا مقصد ملک بھر میں پانچ سال سے کم عمر کے لگ بھگ ایک کروڑ بچوں تک رسائی ہے جن میں دور دراز اور اس سے قبل ناقابل رسائی علاقوں کے تیس لاکھ سے زیادہ بچے شامل ہیں۔
طالبان نے، جنہوں نے اگست میں دوبارہ اقتدار حاصل کیا، اپریل 2018 میں اپنے کنٹرول کے علاقوں میں گھر گھر ویکسینیشن پر پابندی عائد کر دی تھی جب انہوں نے مغربی حمایت یافتہ افغان حکومت اور بین الاقوامی افواج کے خلاف باغیانہ حملے کیے تھے۔
مشرقی بحیرہ روم کے علاقے کے لئے عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حامد جعفری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ،" اس پابندی کی وجہ سے ساڑھے تین سال کی اس مدت میں تقریبا 33 لاکھ بچے ایسے تھے جن میں سے کچھ تک ویکسی نیشن کے لئےیا تو کبھی نہیں یا کبھی کبھار ہی پہنچا جا سکا۔"
ڈبلیو ایچ او کے عہدے دار نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے پولیو ٹیموں کی گھرگھر نقل و حرکت کو اس وقت اپنے تنازعات کی نوعیت کے پیش نظر اپنے جنگجوؤں کے لیے سیکورٹی رسک کے طور پر دیکھا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ،"اب ان کے پاس ملک بھر کا کنٹرول ہے اور اس وقت کوئی زیادہ فعال تنازعہ موجود نہیں ہے اس لئے انہوں نے (طالبان) نے پولیو کے خاتمے اور خاص طور پر گھر گھر ویکسینیشن کی حمایت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
SEE ALSO: افغانستان: نامعلوم افراد کی فائرنگ سے انسدادِ پولیو کی تین رضاکار خواتین ہلاکجعفری نے 1990 کے عشرےمیں افغانستان میں شروع ہونے والے پولیو کے خاتمے کے پروگرام کا حوالہ دیا جب طالبان حکومت میں تھے اور شروع سے ہی انسداد پولیو کی کوششوں کی حمایت پر اسلام پسند گروپ کو سراہا ۔
انہوں نے انسداد پولیو مہم کے بھرپور نفاذ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کیسز کی کم تعداد افغانستان سے وائرس کے خاتمے کے لیے’’ واقعی اک منفرد موقع ‘‘ فراہم کرتی ہے۔
جعفری نے گھر گھر مہم کی اقتصادی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کے ملک پر قبضے کے بعد ملک گیر سطح پر ویکسینیشن کی فراہمی کے لیے افغان ہیلتھ ورکرز کی یہ پہلی بڑی مہم ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ"حقیقی اقتصادی چیلنجوں کی موجودہ صورت حال میں، جہاں بہت سے مزدوروں اور لوگوں کو ان کی تنخواہیں ادا نہیں کی گئی ہیں، یہ مہم ایک ایسی سرگرمی ہوگی جس میں کارکنوں کی ایک بڑی تعداد ویکسین کی ترسیل میں در حقیقت حصہ لے گی اورانہیں اس کی ادائیگی کی جائے گی۔"
ڈبلیو ایچ او کے عہدیداروں نے بتایا کہ افغانستان میں ایک دوسری مہم پر بھی اتفاق کیا گیا ہے،جو دسمبر میں پاکستان میں ایک مہم کے ساتھ مل کر شروع ہو گی۔
جعفری نے خبردار کیا کہ ابھی یہ بہت قبل از وقت ہے کہ دونوں ملک یہ خوشی منائیں کہ وہ پولیو کے خاتمے کے قریب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں اب بھی کئی لاکھ ایسے بچے موجود ہیں جنہیں حالیہ برسوں میں پولیو کے قطرے نہیں پلائے گئے، اور پاکستان میں ایسے علاقے ہیں جہاں بچوں کو اب بھی اس وائرس کے خلاف ٹیکے لگانے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر حامد جعفری نے کہا کہ، ''دونوں ملکوں میں اس وقت پولیو کے حتمی خاتمے میں کامیابی کے لیے ابھی ایک نادر موقع موجود ہے۔ پیش رفت حوصلہ افزا ہے، لیکن یہ بہت کمزور ہے، اور دونوں ملکوں کو اب بھی بہت محنت کرنی ہے۔ یہ وقت مطمئن ہونے کا نہیں ہے"۔