پاکستانی قونصل خانے پر حملہ، داعش نے ذمہ داری قبول کر لی

افغان حکام کے مطابق خودکش بمبار جلال آباد پاکستانی قونصل خانے کے باہر ویزے کے حصول کے لیے کھڑے افراد کی قطار میں شامل ہونا چاہتا تھا لیکن جب اُسے روکا گیا تو اُس نے اپنے جسم سے بندھے بارودی مواد میں دھماکا کر دیا۔

افغانستان کے مشرقی شہر جلال آباد میں پاکستانی قونصل خانے کے قریب بم دھماکے اور فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم سات افغان سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے۔

شدت پسند گروہ ’داعش‘ نے جلال آباد میں پاکستانی قونصل خانے پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

افغان عہدیداروں کا کہنا ہے کہ تنیوں حملے آور مارے گئے ہیں۔

جلال آباد صوبہ ننگر ہار کا مرکزی شہر ہے۔ واضح رہے افغانستان میں صوبہ ننگر ہار ’داعش‘ کا ایک مضبوط گڑھ بنتا جا رہا ہے۔

’داعش‘ کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ اُس کے تین خودکش بمباروں نے اس حملے میں حصہ لیا اور اس میں پاکستانی انٹیلی جنس کے متعدد اہلکار ہلاک ہوئے۔

پاکستان کی طرف سے اس حملے میں شدید مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ قونصل خانے میں اُس کے عملے تمام اراکین محفوظ ہیں اور ٹوٹا ہوا شیشہ لگنے سے ایک عہدیدار معمولی زخمی ہوا۔

افغان حکام کے مطابق بدھ کو فائرنگ کا سلسلہ اُس وقت شروع ہوا جب ایک خودکش بمبار نے پاکستانی قونصل خانے کے قریب اپنے جسم سے بندھے بارودی مواد میں دھماکا کر دیا۔

جس مقام پر دھماکا ہوا اُس کے قریب ہی بھارت کا قونصل خانہ، ایک اسپتال اور کئی اسکول بھی واقع ہیں۔

صوبائی گورنر کے ترجمان کے مطابق خودکش بمبار پاکستانی قونصل خانے کے باہر ویزے کے حصول کے لیے کھڑے افراد کی قطار میں شامل ہونا چاہتا تھا لیکن جب اُسے روکا گیا تو اُس نے اپنے جسم سے بندھے بارودی مواد میں دھماکا کر دیا۔

افغان حکام کے مطابق دو حملہ آور قریب ہی ایک خالی سرکاری گیسٹ ہاؤس میں چھپ گئے، جنہیں بعد میں کارروائی کر کے ہلاک کر دیا گیا۔

اُدھر بدھ کی شام افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور اُنھیں جلال آباد میں پاکستانی قونصل خانے پر ہونے والے حملے سے متعلق آگاہ کیا۔

وزیراعظم نے دفتر سے جاری بیان کے مطابق افغان صدر نے اپنے ملک میں موجود پاکستان کے سفارتی عملے کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اضافی اقدامات کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی۔

پاکستانی وزیراعظم نے اس حملے میں افغان سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا کرتے ہوئے افغان صدر سے اس پر تعزیت کی۔

وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ دہشت گردی ایک مشترکہ دشمن ہے جس کے مکمل خاتمے کے لیے دونوں ملک مل کر کارروائی کریں گے۔

رواں ماہ ہی افغانستان کے شمالی شہر مزار شریف میں بھارتی قونصل خانے پر بھی عسکریت پسندوں نے حملہ کیا تھا۔

خودکار ہتھیاروں سے لیس حملہ آوروں نے قونصل خانے میں گھسنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے منصوبے میں کامیاب نا ہو سکے اور قریب ہی ایک عمارت میں روپوش ہو کر اُنھوں نے قونصل خانے کی جانب فائرنگ کی اور راکٹ داغے۔

افغان سکیورٹی فورسز کی طرف سے تقریباً 24 گھنٹوں تک جاری رہنے والی کارروائی کے بعد تینوں حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا۔

جلال آباد میں تازہ حملہ ایسے وقت ہوا، جب رواں ہفتے ہی اسلام آباد میں پاکستان، افغانستان، امریکہ اور چین کے نمائندوں کے اجلاس میں افغانستان میں لڑائی کے خاتمے اور امن کے لیے کوششوں پر غور کیا گیا۔

اس چار فریقی اجلاس کا مقصد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کی راہ ہموار کرنا اور مصالحت کے لائحہ عمل کا تعین کرنا تھا اور اس سلسلے میں آئندہ اجلاس 18 جنوری کو کابل میں ہو گا۔

افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات گزشتہ سال جولائی سے معطل ہیں۔

دونوں کے درمیان پاکستان کی میزبانی میں جولائی 2015ء کے اوائل میں براہ راست مذاکرات ہوئے تھے لیکن ایک ہی اجلاس کے بعد یہ عمل اُس وقت ٹوٹ گیا جب طالبان کے امیر ملا عمر کی موت کی خبر منظر عام پر آئی۔