امن مذاکرات اور افغانستان میں موسیقی کا مستقبل

تمام خواتین پر مشتمل آرکسٹرا میں ظریفہ عبیدہ کابل میں ایک کنسرٹ میں اپنی ساتھیوں کے ساتھ پرفارمنس دے رہی ہیں۔ فروری 2017

صدیوں سے افغان ثقافت میں موسیقی کا ایک بڑا حصہ تھا، مگر طالبان کے دور میں موسیقی کو غیر اسلامی قرار دے کر اس پر پابندی لگا دی گئی۔ اب جب کہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ کسی سمجھوتے کا امکان موجود ہے تو افغانستان میں موسیقی کے شائقین پریشان ہیں کہ اگر طالبان دوبارہ حکومت میں آئے تو ملک میں موسیقی کا مستقبل کیا ہو گا۔

افغانستان میں کہا جاتا ہے کہ موسیقی روح کی غذا ہے اور آج کابل کی گلیوں میں موسیقی سنی جا سکتی ہے۔

لیکن طالبان کے دور حکومت میں طبلے، رباب اور شہنائی کی آواز پر پابندی تھی۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ موسیقی کی تمام اقسام پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

2001 میں طالبان کا اقتدار ختم ہونے کے بعد افغانستان میں دوبارہ موسیقی پھلنا پھولنا شروع ہو گئی۔

مگر اب جب کہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان امن مذاکرات جاری ہیں، موسیقی کے شائقین کو یہ خدشہ ہے کہ طالبان افغانستان میں موسیقی کو دوبارہ خطرے میں ڈال دیں گے۔

افغانستان نیشنل میوزک انسٹی ٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے احمد ناصر سرمست کا کہنا تھا کہ زلمے خلیل زاد سے ہماری کوئی ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی افغان حکومت سے کہ ہم انہیں میوزک انڈسٹری کے خدشات سے آگاہ کر سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ وہ ہمارے خدشات سے آگاہ ہوں گے۔

’’جب امن مذاکرات کی تفصیلات واضح ہو جائیں گی تو ہم اپنا بیان جاری کریں گے۔‘‘

مقامی لوگوں کے مطابق کھارآباد گلی کابل میں موسیقی کا گڑھ ہے۔ یہاں مقامی دکانیں اور بینڈ ہیں جو موسیقی کے آلات بیچتے اور ان کی مرمت کا کام بھی کرتے ہیں۔

طالبان کے دور حکومت میں یہ گلی خاموش تھی۔ اگرچہ یہاں کے مقامی لوگ امن مذاکرات کو خوش آئند قرار دیتے ہیں مگر وہ بھی ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔

مقامی گلوکار ناصر احمد ہمانگ کا کہنا تھا کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ حکومت امن لائے مگر ایسا امن جس میں ہم بھی شامل ہوں۔ ہمیں ایسا امن نہیں چاہئے جس میں ہم شامل نہ ہوں۔ ہم امن کا حصہ بننا چاہتے ہیں تاکہ ہم اپنی موسیقی کے ذریعے اپنے ملک سے محبت کا اظہار کر سکیں۔‘‘

مگر یہ خدشات صرف موسیقی تک ہی محدود نہیں ہیں۔

آلات موسیقی کی مرمت کا کام کرنے والے محمد اسمعیل کا کہنا تھا کہ حکومت کو اس سمجھوتے میں ہر چیز نظر میں رکھنی چاہئے جیسے موسیقی، فلم، عورتوں کے حقوق اور عوام کی آزادی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کا آئین برقرار رہنا چاہئے۔

’’اور ہاں یہ درست ہے کہ ہم امن کے پیاسے ہیں۔‘‘

ایک اور مقامی گلوکار وحید شیدائی نے کہا کہ اگر حالات طالبان دور جیسے دوبارہ ہو گئے تو ہم اپنے ملک سے دوبارہ ہجرت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

اگرچہ افغانستان میں ہر کوئی امن چاہتا ہے مگر موسیقی کے فین اپنے ملک میں موسیقی کی پرانی اور محبوب روایت کے بارے میں پریشان ہیں۔