افغانستان میں جمعہ کی دوپہر دس فوجیوں کو لے کر دو گاڑیاں شمالی صوبے بلخ کے دارالحکومت مزارِ شریف میں 209 شاہین کور کے مرکزی داخلے کی پہلی چیک پوسٹ پر رکتی ہیں۔
فوجیوں کے بھیس میں گاڑیوں پر سوار طالبان عسکریت پسند تھے جن کے پاس افغان نیشنل آرمی کے جعلی شناختی کارڈز تھے۔
ایک گاڑی میں ایک فوجی شدید زخمی حالت میں موجود ہوتا ہے جو فوری طبی امداد کے لیے درخواست کر رہا ہوتا ہے۔
"وائس آف امریکہ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر فوجی اڈے (شاہین کور) کے ایک فوجی نے بتایا کہ "(گاڑی میں موجود زخمی فوجی خون میں تر تھا اور جب پہلی چیک پوسٹ پر موجود گارڈ نے دوسری چیک پوسٹ پر اپنے اعلیٰ افسر سے اس بارے میں بات کی تو اسے گاڑیوں کو آنے کی اجازت دینے کا کہا گیا۔"
اس فوجی نے مزید بتایا کہ "انھیں دوسری چیک پوسٹ سے بھی گزرنے دیا گیا اور جب تیسری چوکی پر انھیں روک کر انھیں اسلحہ جمع کروانے کا کہا گیا تو گاڑی پر موجود افراد نے گارڈز پر فائرنگ شروع کر دی۔"
ان کے بقول مرکزی چوکی پر موجود گارڈ اس بات پر قائل ہو چکا تھا کہ یہ لوگ شمالی صوبہ فریاب سے مشن سے واپس آ رہے ہیں اور ان کے ساتھ ایک زخمی فوجی ہے جسے اگر فوری طبی امداد نہ دی گئی تو وہ مر سکتا ہے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ حملہ آور تیسری چیک پوسٹ پر محافظوں کو ہلاک کرنے کے بعد فوجی اڈے کے اندر پھیل گئے۔ "دو حملہ آور کیفیٹیریا اور مسجد کی طرف بھاگے اور وہاں خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔"
اس حملے میں کم ازکم 140 فوجیوں کے مرنے کی اور درجنوں کے زخمی ہونے کا بتایا جاتا ہے۔
افغان وزارت دفاع کے ترجمان جنرل محمد رادمنش نے زخمی فوجی کے ذریعے شاہین کور میں حملہ آوروں کے داخلے کے وقوعے کی تصدیق کی۔
"ہم فوجی ہیں اور اپنے ساتھیوں کے لیے جذبات رکھتے ہیں۔ وہ (زخمی) فوجی خون میں تر تھا۔۔۔دو حملہ آور خودکش بمبار تھے اور دیگر آٹھ بندوقوں سے مسلح تھے جو نہتے فوجیوں کو مارتے رہے اور انھیں اڈے میں موجود افغان کمانڈوز نے گولیاں مار کر ہلاک کیا۔"
حملے میں زندہ بچ جانے والوں کے تاثرات
زخمی ہونے والے ایک فوجی ذبیح اللہ نے افغان میڈیا کو بتایا کہ وہ سب ابہام کا شکار تھے کہ فوجی اڈے میں کون کس کے خلاف لڑ رہا ہے کیونکہ سب ہی افغان فوجی یونیفارم میں تھے۔
مقامی ٹی وی اسٹیشن 'آریانا نیوز' سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ "جیسے ہی ہم مسجد سے باہر آئے تو ہم نے گولیوں کی آواز سنی اور پھر دیکھا کہ ایک گاڑی بہت تیزی سے ہماری طرف آ رہی ہے۔ اس پر چار افراد سوار تھے دو آگے اور دو پیچھے، آگے والوں کے پاس اسلحہ تھا جب کہ پیچھے والوں کے پاس خودکش جیکٹس تھیں۔"
ذبیح اللہ کا مزید کہنا تھا کہ "میرے ایک ساتھی نے کہا کہ وہ افغان فوجی ہیں کیونکہ انھوں نے فوجی یونیفارم پہن رکھا تھا۔ لیکن ابھی ہم یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ وہ کون ہیں انھوں نے ہم پر فائرنگ شروع کر دی۔"
انھوں نے بتایا کہ اس فوجی اڈے میں بغیر مناسب شناخت کے داخل ہونا ناممکن ہے۔ " یہاں تک کہ فوجیوں کو بھی اپنے شناختی کارڈز دکھائے بغیر یہاں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ وہ (حملہ آور) کیسے یہاں اندر آ گئے؟"
اور ایک زخمی فوجی نوراللہ نے فوجی اڈے پر موجود اپنی سینیئر قیادت پر بدنظمی اور بدعنوانی کا الزام عائد کیا۔
ایک مقامی ٹی وی چینل "طلوع نیوز" سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ " کور میں تمام چاروں اعلیٰ افسران بدعنوان ہیں۔ انھوں نے ہمیں بیچ دیا اور وہ کبھی بھی یہاں نہیں رکے۔ اگر کوئی غریب فوجی اختتام ہفتہ کے دوران اپنی بیمار ماں کو دیکھنے کے لیے جانا چاہتا ہے تو اسے اجازت نہیں، لیکن اعلیٰ افسران باقاعدگی سے سرکاری گاڑیاں اپنے ذاتی کاموں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔"
ایک اور زخمی فوجی محمد ذبیح نے ریڈیو لبرٹی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "جنہوں نے انھیں (حملہ آوروں کو) ہماری بندوقیں دیں انھیں سرعام پھانسی پر لٹکایا جائے۔ وہ ہماری بندوقیں ہمارے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔"
وزارت دفاع کے ترجمان جنرل رادمنش نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
"ہم نے ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی ٹیم کو فوجی اڈے پر بھیج دیا ہے اور وہ اس حملے کی ہر پہلو سے جانچ کریں گے۔ خطے کے ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مدد سے منصوبہ سازی کے بعد یہ حملہ کیا گیا۔"
تاہم سلامتی کے امور کے بعض ماہرین اس کا الزام دہشت گرد گروپوں پر عائد کرتے ہیں، خواہ وہ طالبان ہوں یا داعش، وہ پہلے بھی ایسے حملے کرتے رہیں اور سکیورٹی فورسز انھیں ناکام بنانے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔
سابق فوجی جنرل عبدالواحد طاقت کہتے ہیں کہ "طالبان نے گزشتہ ماہ فوجی اسپتال پر حملے میں بھی ایسے ہی حربے استعمال کیے تھے۔ اسپتال پر حملے کی طرح عسکریت پسندوں نے مزارِ شریف میں فوجی اڈے کے اندر اپنے لوگوں کو متعین کر رکھا تھا۔ ان کے پانچ چھ ساتھی وہاں تھے۔"
گزشتہ ماہ کابل میں فوجی اسپتال پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی لیکن عبدالواحد طاقت کا خیال ہے کہ داعش اور طالبان کو ایک سی ہی غیر ملکی مدد حاصل ہے۔
"اس کی مفصل تحقیقات ہونی چاہئیں۔ دشمن نے تقریباً ہر جگہ بشمول فوجی کورز، نیشنل سکیورٹی میں اپنے بندے داخل کر رکھے ہیں اور وہ انھیں جب ضرورت ہو استعمال کرتے ہیں۔"
کابل میں موجود طالبان کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار واحد مژدہ بھی عبدالواحد طاقت کے خیالات سے متفق ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ "عسکریت پسند ایسے حملوں کی بہت ہی بہترین طریقے سے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ وہ اندر کے لوگوں سے حاصل کردہ معلومات کے ذریعے اپنے حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ "فوجی اڈے پر حملے کا وقت ان چار حملہ آروں کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر تھا جو پہلے یہاں کام کر چکے تھے اور یہ بخوبی جانتے تھے کہ یہاں کس طرح کام ہوتا ہے۔ انھیں پتا تھا کہ نماز جمعہ ڈیڑھ بجے کے قریب ختم ہوتی اور فوجیوں کے پاس اس وقت ہتھیار نہیں ہوں گے۔"
لیکن ترجمان رادمنش ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے مُصر تھے کہ یہ حملہ ایک زخمی فوجی کی آڑ میں ہی ہوا۔