افغانستان: مٹی کے تودے سے دو ہزار سے زائد ہلاکتوں کا خدشہ

صوبائی عہدیداروں کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 350 سے 2000 کے درمیان ہو سکتی ہے۔
افغانستان کے صوبہ بدخشاں کے ایک دورافتادہ گاؤں میں مٹی کے تودے گرنے سے اس کے تلے دبے 2100 افراد کے زندہ بچنے کی امیدیں دم توڑتی جا رہی ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ علاقے میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں لیکن مٹی اور پتھروں کی دبیز تہہ تلے دبے افراد کے زندہ بچنے کے امید نہیں ہے۔

صوبائی عہدیداروں کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 350 سے 2000 کے درمیان ہو سکتی ہے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جمعہ کو گرنے والے ان مٹی کے تودوں سے بے گھر ہونے والے چار ہزار سے زائد افراد پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکام کے مطابق علاقے میں مٹی کے مزید تودے گرنے کا خدشہ بھی ہے۔


صوبہ بدخشاں کے ضلع اگرو کے گاؤں میں حکام کے مطابق ایک ہزار خاندان مقیم تھے جن میں سے مٹی کے تودے تلے 2100 افراد پھنس گئے تھے جن میں مرد، خواتین اور بچے شامل ہیں۔

افغانستان میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی کارروائیوں کے رابطہ دفتر برائے اقوام متحدہ کے ایک عہدیدار ایڈن او لیرے نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ قرب جوار کے علاقوں سے سات سو خاندانوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا جارہا ہے۔

’’میرا خیال ہے اس پورے علاقے کو ایک اجتماعی قبر کا درجہ دے دیا جائے گا۔ تاحال جاری امدادی کارروائیوں کی توجہ بچ جانے والے تقریباً چار ہزار افراد پر ہے یہ لوگ قرب و جوار کے دیہاتوں میں مٹی کے تودے گرنے کے ممکنہ خطرے کی وجہ سے بے گھر ہوئے۔‘‘

امریکہ کے صدر براک اوباما نے اس تباہی کی خبر سننے کے بعد افغانستان کے لیے اپنے ملک کی جانب سے تعاون کا اظہار کیا۔

"ایک دہائی کے مشکل وقت میں امریکہ افغان عوام کے ساتھ کھڑا رہا ہے، اب جب کہ ہماری جنگ اس سال کے اواخر میں اختتام کو پہنچ رہی ہے ہم اپنے افغان شراکت داروں کی اس آفت سے نمٹنے میں مدد کے لیے تیار ہیں اور افغانستان اور اس کے عوام کے لیے ہمارا عزم جاری رہے گا۔"

یہاں بے گھر ہونے والوں افراد کو پینے کے پانی، خوراک اور ادویات کی فوری ضرورت کے علاوہ عارضی پناہ گاہوں کی بھی ضرورت ہے۔

حکام کے مطابق مٹی کا تودہ گرنے کی وجہ بظاہر علاقے میں شدید بارشیں تھیں۔ مقامی عہدیداروں نے بتایا کہ امدادی کاموں میں مقامی آبادی کے لوگ بھی سرکاری ٹیموں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

صدر حامد کرزئی نے متاثرین تک پہنچنے کے لیے امدادی کارروائیوں کو تیز کرنے کا حکم دیا ہے۔

کابل میں اقوام متحدہ کے ایک نمائندے کے مطابق سڑکیں تو کھلی ہیں لیکن بھاری مشینری کو متاثرہ علاقے تک پہنچانے کے لیے زمینی راستہ مناسب نہیں۔

امدادی ٹیموں کو مشکلات کا سامنا ہے کیوں کہ بارشوں کی وجہ سے شمالی افغانستان میں سیلابی ریلوں کے باعث رواں ہفتے 100 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے اور بنیادی ڈھانچے کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔

افغان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی اور دیگر غیر سرکاری تنظیموں بھی علاقے میں امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔

ادھر پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے افغان صدر حامد کرزئی کے نام اپنے ایک پیغام میں مٹی کے تودے گرنے سے ہونے والی ہلاکتوں پر تعزیت کا اظہار کیا۔ بیان میں وزیراعظم نے کہا کہ اس مشکل وقت میں پاکستانی عوام افغانوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔