افغانستان سے متعلق بین الاقوامی رابطہ گروپ کے لگ بھگ 50 عہدےداروں نے روم میں ایک اجلاس میں افغان حکومت کو سیکیورٹی اور ترقیاتی امور کی ذمہ داری کی منتقلی کے سلسلے میں ہونے والی پیش رفت پرگفتگوکی ۔ یہ پہلا موقع ہے کہ اس اجلاس میں ایران بھی شریک ہوا۔
بین الاقوامی رابطہ گروپ نے روم میں ایک ایسے وقت میں اجلاس کیا ہے، جب افغانستان میں نو سالہ جنگ کے خاتمے کےلیے نئے سرے سے کوششیں ہو رہی ہیں ۔ ان ایک روزہ مذاکرات کا اصل مقصد افغانستان میں ہونے والی پیش رفت کا اندازہ لگانا تھا۔
اجلاس میں شرکت کرنے والے نمائندوں نےکہا کہ ایران کو ان کوششوں کےسلسلےمیں مدعو کیا گیا تھا جن کا مقصد افغانستان کے مستقبل پر ہونے والی گفتگو کے لیے ایک جامع انداز اپنانا اور علاقائی فریقوں کو ان میں شامل کرنا تھا۔
افغانستان اور پاکستا ن کے لیے امریکہ کے خصوصی سفیر رچرڈ ہال بروک نے کہا کہ واشنگٹن سے ایران کی ممکنہ شمولیت کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں، افغانستان کےساتھ ایران کی طویل اور تقریباً مکمل طور پر کھلی سرحد کے باعث افغانستان کی اس صورت حال کے کسی پر امن تصفیے میں اسے ایک کردار ادا کرنا ہے ۔ ابھی تک تو امریکہ کو ان کی موجودگی سےکوئی مسئلہ نہیں ہے۔
یہ مذاکرات، افغانوں کو کنٹرول سپرد کرنے کے کسی منصوبے کی تشکیل کی غرض سے اگلے ماہ لزبن میں نیٹو کے ملکوں کے سر براہ اجلاس سے قبل ایک تیاری کا اجلاس ہیں۔ لیکن ہول بروک نے ایسےکسی خیال کو مسترد کر دیا کہ آئندہ مہینوں میں ایسے کچھ مخصوص علاقوں کے ناموںکا اعلان کیا جائے گا جنہیں افغانوں کے حوالے کیا جا سکتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ لزبن میں ایسے صوبوں کی تعداد کے بارے میں کوئی مخصوص اعلان نہیں ہوگا جنہیں منقلی کے درجے میں ڈالا جا سکتا ہے ۔ ہم اس حوالے سے صوبوں کا تعین نہیں کریں گے ہم منتقلی کے عمل پر بات کریں گے ۔ منتقلی ،غالباً وہ سب سے اہم لفظ ہے جو آج اس کانفرنس میں ادا کیا جا رہا ہے ۔
نمائندوں نے مزید کہا کہ لزبن سر براہی اجلاس توقع ہے کہ افغانستان میں منتقلی کے عمل کو تیزی سے شروع کرنے کا ایک ذریعہ بنے گا اس مقصد کے ساتھ کہ یہ عمل 2014 تک مکمل ہو جائے گا۔