افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر نے براہ راست کسی ملک کا نام لیے بغیر، الزام لگایا ہے کہ افغانستان میں داعش کے لڑاکوں کو مالی اور انتظامی حمایت فراہم کی جا رہی ہے۔
حنیف اتمر نے بدھ کے روز مشرقی صوبہٴ ننگرہار کے دارالحکومت جلال آباد میں صحافیوں کو بتایا کہ اِس ہفتے اُن کے ملک کی سلامتی افواج نے داعش کے تین لڑاکوں کو گرفتار کیا ہے، جس کی قیادت تاجکستان کے وسط ایشیائی ملک سے تعلق رکھنے والا ایک شدت پسند کر رہا تھا؛ جب کہ اِن افراد کی چھان بین سے پتا چلا ہے کہ اُنھیں بیرون ملک سے حمایت مل رہی ہے۔
اتمر کے بقول، ’’ہمیں پتا ہے کہ اُنھیں تربیت کہاں سے فراہم ہورہی ہے، اُنھیں اسلحہ کون دے رہا ہے، اُنھیں رقوم فراہم کرنے والا کون ہے، اور اُن کی حمایت کون کر رہا ہے‘‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں داعش کے لڑاکوں کی اکثریت پاکستان سے تعلق رکھتی ہے، جن کی شناخت اُن کی شہریت کے دستاویزات سے ثابت ہوتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستانی شدت پسند کے ساتھ وسط ایشیائی اور مشرق وسطیٰ کے ملکوں سے تعلق رکھنے والے شدت پسند شامل ہو جاتے ہیں۔
افغان افواج نے دعویٰ کیا ہے کہ اِس ہفتے ننگرہار کے ضلع، کوٹ میں شدید لڑائی کے دوران داعش کے 135 سے زائد لڑاکوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔
اہل کاروں نے عملے کے کم از کم 12 افراد کو ہلاک کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ حکام نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ اس دوران سکیورٹی کے کم از کم 12 اہل کار بھی کام آئے۔
اتمر نے افغانستان کے اندر ’’دہشت گرد کارروائیاں‘‘ کرنے کے سلسلے میں محفوظ ٹھکانوں کی فراہمی کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیا۔
افغان حکام ایک طویل عرصے سے پاکستان طالبان کی اعانت اور اُن کے چوٹی کے رہنماؤں کو محفوظ پناہ گاہ دینے کا الزام پاکستان پر لگاتے رہے ہیں۔ تاہم، اہل کاروں نے اس سے پیشتر داعش کی حمایت کا الزام پاکستان پر نہیں لگایا تھا، جو افغان طالبان کا مخالف ہے۔
اتمر نے داعش کے عناصر کے خلاف کامیابی کا بھی دعویٰ کیا، اور کہا کہ یہ گروپ جس کی اس سے قبل رکنیت ہزاروں میں تھی اُن کی تعداد اب کم ہو کر سینکڑوں پر آچکی ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ اس میں سے زیادہ تر یا تو ہلاک ہوگئے ہین یا پھر غائب ہو چکے ہیں۔
پاکستانی حکام نے داعش کی حمایت کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔ تاہم، اُن کا کہنا ہے کہ کسی باضابطہ تردید سے قبل وہ چاہیں گے کہ اتمر کے بیان کا مطالعہ کیا جائے۔