افغانستان: مظاہرین اور پولیس میں جھڑپیں، کم از کم چار شہری ہلاک

افغانستان کا غور صوبہ

افغانستان میں کرونا وائرس کے سلسلے میں لاک ڈاون ہے جس کی وجہ سے پڑوس کے ملکوں سے خوراک کی ترسیل میں رکاوٹیں درپیش آ رہی ہیں۔ اس صورت حال کے نتیجے میں، خوراک کے نرخوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور بعض اشیا خورد و نوش نایاب ہوگئی ہیں۔

ہفتے کے روز غور صوبے میں درجنوں افراد گورنر کے دفتر کے سامنے احتجاج کے لیے جمع ہوئے اور خوراک کی قلت کے خلاف احتجاج کیا۔

گورنر ناصر غازی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بعض مظاہرین مسلح تھے۔ اس سے پیشتر کہ وہ فائرنگ شروع کرتے، پولیس نے مجمعے کو منتشر کرنے کے فائرنگ کی۔ اس جھڑپ میں سیکورٹی کے چار اہل کار بھی زخمی ہوئے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں مقامی ریڈیو کا ایک صحافی بھی شامل ہے۔

افغانستان کے آزاد انسانی حقوق کمیشن نے اس واقعے کی مذمت کی ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے پولیس کی فائرنگ ناقابل قبول ہے اور کمیشن واقعے کی تحقیقات کرنے کے لیے اپنی ٹیم غور بھیج رہا ہے۔

دریں اثنا، ہفتے کے روز افغانستان کی وزارت صحت نے تصدیق کی ہے کہ ملک میں کرونا وائرس کے شکار مریضوں کی تعداد 4000 سے تجاوز کر گئی ہے، جبکہ 106 اموات ہوئی ہیں۔ افغان حکومت نے اس ماہ پورے ملک میں لاکھوں خاندانوں کو روٹیاں تقسیم کرنا شروع کر دی ہیں، تاکہ وبا کی وجہ سے کھانے کی اشیا کی جو قلت پیدا ہوئی ہے اس کا مداوا کیا جا سکے۔

واضح رہے کہ رمضان کے مقدس ماہ میں افغانی عوام اضافی مشکلات کا شکار ہوئے ہیں۔ خانہ جنگی اور لڑائیوں کی وجہ سے پہلے ہی وہ عاجز تھے اور کرونا وائرس نے زندگی اور بھی اجیرن کر دی ہے۔ پچھلے چند ہفتوں کے دوران طالبان اور امریکی زیر قیادت افغان سیکورٹی فورسز کے درمیان لڑائی اور جھڑپوں میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔