قندوز شہر سے طالبان حملہ آور بے دخل

جنوبی صوبہ ہلمند کے مرکزی شہر لشکر گاہ کے قریب عسکریت پسندوں نے سکیورٹی کی چوکیوں پر حملہ کر کے کم ازکم 12 پولیس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔

افغانستان میں سکیورٹی فورسز نے طالبان کی طرف سے شمالی شہر قندوز پر قبضے کی کوشش کو ناکام بناتے ہوئے حملہ آوروں کو مرکزی حصوں سے نکال باہر کیا ہے۔

پیر کی صبح طالبان نے شہر پر تمام اطراف سے دھاوا بولا تھا جس کے بعد سکیورٹی فورسز کے ساتھ ان کی لڑائی 24 سے زائد گھنٹوں تک جاری رہی۔

منگل کو بعد از دوپہر قندوز شہر میں سکیورٹی فورسز کا کنٹرول تھا اور حکام کے مطابق مختلف علاقوں میں ممکنہ طور پر چھپے طالبان عسکریت پسندوں کی تلاش کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔

وزارت دفاع کے ترجمان دولت وزیری نے کابل میں صحافیوں کو بتایا کہ سکیورٹی فورسز رہائشی علاقوں میں چھپے طالبان کے خلاف انتہائی محتاط انداز میں سرگرم ہیں تاکہ شہریوں یا ان کے گھروں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔

گزشتہ سال بھی طالبان نے قندوز شہر پر مختصر وقت کے لیے قبضہ کیا تھا لیکن افغان فورسز نے امریکی فوجیوں کی مدد سے عسکریت پسندوں کو یہاں سے نکال باہر کیا تھا۔

حالیہ مہینوں میں طالبان کی کارروائیوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے اور ملک کے خاص طور پر مشرقی، شمالی اور جنوبی علاقوں میں انھوں نے متعدد شہروں پر حملے کیے۔

جنوبی صوبہ ہلمند کے مرکزی شہر لشکر گاہ کے قریب عسکریت پسندوں نے سکیورٹی کی چوکیوں پر حملہ کر کے کم ازکم 12 پولیس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔ اس صوبے کے اضلاع خانشین اور نوا میں بھی طالبان اور سکیورٹی فورسز کے درمیان لڑائی کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔

رواں سال جولائی میں افغانستان سے متعلق امریکی حکومت کے ایک اعلیٰ ترین نگران ادارے "اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن" کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جنوری سے مئی کے درمیان افغان حکومت ملک کے پانچ فیصد علاقے سے اپنا کنٹرول کھو چکی ہے۔

رپورٹ کے اعدادوشمار سے ظاہر ہوا کہ ملک کے تقریباً 400 اضلاع میں سے کم از کم 19 میں حکومت کی عملداری نہیں تھی۔

یہ تازہ لڑائی ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب برسلز میں افغان قیادت یورپی یونین کے ساتھ مشترکہ طور پر ایک کانفرنس کی میزبانی کر رہی ہے جس میں جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان کو اقتصادی اور ترقی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مالی معاونت کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔

افغانستان کو سلامتی کی خراب صورتحال کے ساتھ بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کا بھی سامنا ہے جس کی وجہ سے بہت سے شہری دوسرے ملکوں خصوصاً یورپ کا رخ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔