افغانستان: گنتی مکمل، امیدواروں کے رابطوں میں تیزی

عبداللہ عبداللہ نے زلمے رسول سے رابطے کیے ہیں جب کہ اشرف غنی کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ رابطے کی اپنی کوششوں کو فی الوقت افشا نہیں کر سکتے۔
جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان میں پانچ اپریل کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے ووٹوں کی گنتی کا عمل مکمل ہو گیا ہے لیکن ابتدائی جزوی نتائج کی طرح توقع یہی ہے کہ آٹھ امیدواروں میں سے کوئی بھی کامیابی کے لیے درکار 50 فیصد ووٹ حاصل نہیں کر سکے گا۔

صدارتی امیدوار اور سابق وزیرخارجہ عبداللہ عبداللہ بہرحال تقریباً 44 فیصد ووٹ لے کر سرفہرست ہیں اور دوسرے نمبر پر سابق وزیر خزانہ اشرف غنی ہیں جنہوں نے عبداللہ عبداللہ سے دس فیصد کم ووٹ حاصل کیے۔

سابق وزیرخارجہ زلمے رسول کے حصے میں 11 جبکہ سابق قبائلی جنگجو رہنما
عبدالرسول سیاف کو سات فیصد ووٹ ملے۔

ابتدائی نتائج کے اعلان کے بعد انتخابات میں دھاندلیوں اور بے ضابطگیوں کی شکایات کا جائزہ لے کر حتمی نتائج 14 مئی کو جاری کیے جائیں اور اس کے بعد انتخابات کے دوسرے مرحلے کا اعلان کیا جائے گا جو کہ مئی کے اوخرا میں منعقد ہونے کی توقع ہے۔

خودمختار افغان الیکشن کمیشن کے مطابق انھیں انتخابات میں دھاندلیوں، بے ضابطگیوں اور جعلی ووٹنگ کی ہزاروں شکایات موصول ہوئی ہیں۔

عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی نے انتخابات کے دوسرے مرحلے لیے رابطے تیز کر دیے ہیں اور اگر یہ دونوں شراکت اقتدار کے لیے راضی ہو جاتے ہیں تو انتخابات کا دوسرا مرحلہ منعقد نہیں ہوگا۔ تاہم ایسے اشارے ملے ہیں کہ دونوں اس بات پر شاید متفق نہ ہوں۔

عبداللہ عبداللہ نے زلمے رسول سے رابطے کیے ہیں جب کہ اشرف غنی کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ رابطے کی اپنی کوششوں کو فی الوقت افشا نہیں کر سکتے۔

دونوں امیدوار اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ ملک میں سیاسی عمل مکمل ہونا چاہیے تاکہ جمہوری طریقے سے انتقال اقتدار کا مرحلہ مکمل ہو۔

افغانستان میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں طالبان شدت پسندوں کی طرف سے حملوں کی دھمکیوں کے باوجود بڑی تعداد میں لوگوں نے اس میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اور ڈالے گئے ووٹوں کی شرح 60 فیصد کے قریب بتائی گئی۔

امریکہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک نے مجموعی طور پر پرامن انتخابات کے انعقاد پر افغانستان کی تعریف کی اور اس ملک میں جمہوری عمل کی حمایت کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا تھا۔

سبکدوش ہونے والے صدر حامد کرزئی دو بار منصب صدارت پر فائز رہنے کے وجہ سے آئینی طور پر تیسری مدت کے لیے انتخاب میں حصہ لینے کے اہل نہیں تھے۔

اقتدار کے آخری دنوں میں مختلف معاملات پر صدر حامد کرزئی اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں کشیدگی بھی دیکھنے میں آئی خصوصاً مجوزہ دو طرفہ سکیورٹی معاہدے پر افغان صدر کی طرف سے دستخط نہ کیے جانے پر امریکی حکام خاصے نالاں دکھائی دیے۔

اس منصوبے کے تحت 2014ء کے اواخر میں تمام غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد بھی ایک محدود تعداد میں امریکی فوجی افغانستان میں رہتے ہوئے مقامی سکیورٹی فورسز کی تربیت اور انسداد دہشت گردی کی جنگ میں معاونت فراہم کریں گے۔

انتخابی مہم کے دوران عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی دونوں ہی کامیابی کی صورت میں اس معاہدے پر دستخط کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔