افغانستان میں صحت کے عہدے داروں نے بتایا ہے کہ ایران کی سرحد کے ساتھ واقع مغربی صوبے میں تین افراد کے بارے میں یہ شبہ ہے کہ وہ کرونا وائرس میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ جب کہ ایران میں اس مہلک وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر کم ازکم 8 ہو گئی ہے۔
کرونا وائرس کے مریضوں کی اطلاع کے بعد افغان حکومت نے فوری طور پر ایران کے لیے فضائی اور زمینی راستوں کے ذریعے سفر پر عارضی پابندی لگا دی ہے اور ایران سے انڈوں اور مرغیوں کی درآمد بھی روک دی ہے۔
افغانستان کی وزارت صحت کے ایک ترجمان نے اتوار کے روز وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہرات کے صوبائی اسپتال میں کرونا وائرس کے تین مریضوں کو علاج کے لیے ایک الگ تھلگ یونٹ میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
وحید اللہ مہر نے بتایا کہ تینوں مریضوں کے خون کے نمونے لیبارٹری میں بجھوا دیے گئے ہیں اور ان کے تجزیے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ تاہم ترجمان کا کہنا تھا کہ ابھی یہ فیصلہ کرنا قبل از وقت ہو گا کہ وہ سی او وی آئی ڈی -19 میں مبتلا ہیں۔
ادھر تہران نے مزید 12 نئے کیسوں کی اطلاع دی ہے جن میں پچھلے چند دنوں کے عرصے میں ہونے والی کم ازکم 8 ہلاکتیں بھی شامل ہیں۔ تاہم ایران کے واقعات کا چین میں کرونا وائرس سے موازنہ کیا جا رہا ہے جہاں سب سے پہلے یہ وبا ظاہر ہوئی تھی۔ چین میں اب تک 77 ہزار کے لگ بھگ افراد اس وائرس کے حملے کا شکار بن چکے ہیں جب کہ ہلاکتوں کی تعداد 2442 کے ہندسے کو چھو رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کا پھیلاؤ افغانستان کے لیے ایک بڑا خطرہ بن سکتا ہے جہاں برسوں سے جاری جنگ اور بدعنوانی سے صحت کے شعبے کو شدید نقصان پہنچ چکا ہے۔ اور غربت کے باعث بہت کم افغان اس قابل ہیں کہ وہ اپنا علاج معالجہ کروا سکیں۔
افغانستان کے لیے یہ وبا اس لیے بھی زیادہ خطرہ بن سکتی ہے کیونکہ وہاں اس وائرس سے بچاؤ، تشخیص، علاج معالجے اور مریضوں کو قرنطینہ میں رکھنے کی سہولتیں نہ ہو نے کے برابر ہیں۔
افغانستان میں کرونا وائرس کے کیسز کا انکشاف امریکہ اور طالبان کے درمیان تشدد میں کمی کے معاہدے پر عمل درآمد کے ایک دن بعد ہوا ہے۔
دوسری جانب پاکستان نے ایران میں کرونا وائرس کے واقعات اور ہلاکتوں کے بعد حٖفاظتی انتظامات کے طور پر ایران کے ساتھ اپنی سرحدیں عارضی طورپر بند کر دیں ہیں۔ ہر روز سینکڑوں تجارتی گاڑیاں اور شیعہ مسلمان زیارتوں کے لیے تفتان کے راستے پاکستان سے ایران کا سفر کرتے ہیں۔ پاکستان میں ابھی تک کرونا وائرس کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔
پاکستان چین سے آنے والے مسافروں پر بھی نظر رکھ رہا ہے۔ چین میں اس وقت لگ بھگ 30 ہزار پاکستانی موجود ہیں جن میں اکثریت طالب علموں کی ہے، جب کہ پاکستان میں 10 ہزار کے قریب چینی رہ رہے ہیں جو زیادہ تر سی پیک پراجیکٹس سے وابستہ ہیں۔