مجوزہ فوجی انخلا اور سلامتی، امریکہ افغان مذاکرات کا آغاز

AFGHANISTAN-USA/SECURITY

افغان مذاکراتی ٹیم کے سربراہ نےنامہ نگاروں کو بتایا کہ بات چیت کے آغاز پر فریقین کی کوشش مشترکہ نکتوں کو تلاش کرنے پر مرکوز رہی
امریکی اور افغان عہدے داروں کے مابین ہونے والےمذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے، جِن میں اِس بات کا تعین ہوگا کہ 2014ء کے آخر میں جب بین الاقوامی لڑاکا افواج کا ملک سے انخلا ہوگا، افغانستان میں کتنے امریکی فوجی اہل کار تعینات رہیں گے۔

دونوں ممالک کے نمائندوں نےافغان دارالحکومت کابل میں جمعرات کے روز باہمی سلامتی کےسمجھوتے کو آخری شکل دینے کے معاملے پر غور و خوض کیا۔

افغان مذاکراتی ٹیم کے سربراہ اور امریکہ میں افغان سفیر اکلیل حکیمی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ بات چیت کے آغاز پر فریقین کی کوشش رہی کہ مشترکہ نکتوں کو تلاش کیا جائے۔

حکیمی کے الفاظ میں،’ ہمیں امید ہے کہ افغان اقتدار اعلیٰ کو مدِنظر رکھتے ہوئے، ایسے نکات تلاش کرلیے جائیں گے جو دونوں ملکوں کے مفاد میں ہوں۔ جیسے ہی ہمیں یہ مشترک نکتے مل جائیں گے، انشاٴاللہ، طرفین اس دستایز کو حتمی شکل دینے کی طرف قدم بڑھائیں گے‘۔

امریکی ٹیم کے سربراہ، افغانستان اور پاکستان کے معاون نمائندہ خصوصی جیمز وارلک نے کہا کہ بات چیت میں اُس قانونی بنیاد پر دھیان مرکوز رہے گا آیا 2014ء کے بعد امریکی فوجی افغانستان میں کس طرح کام کرپائیں گے۔

جیمز کے بقول، ’یہ دستاویز سلامتی سے متعلق رشتوں اور دیرپہ سکیورٹی کے معاملے پر ساجھے داری کے عزم کا اظہار ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بات دونوں ملکوں کے عین مفاد میں طےہوجائے گی‘۔

افغانستان کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ طرفین نےمذاکرات کے سلسلے میں کلیدی اصولوں کی نشاندہی کرلی ہے، جن میں افغان اقتدار اعلیٰ اور افغان قومی مفادات کا خاص خیال رکھا جائے گا۔ اِن اہداف میں ملک میں سکیورٹی فراہم کرنے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے افغان فوج کی استعداد کو مضبوط بنانا شامل ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک نے واضح کیا کہ ان مذاکرات کی بنیاد اس بات پر ہوگی کہ امریکہ افغانستان میں مستقل فوجی اڈے کا حصول یا اپنی موجودگی برقرار رکھنا نہیں چاہتا، جسے ہمسایہ ممالک ایک خطرہ تصور کریں۔

اِن مذاکرات میں اُس حساس معاملے پر بھی بات ہوگی آیا چارہ جوئی کی صورت میں امریکی فوجیوں کے خلاف مقدمہ افغان قانون کے تحت چلے گا۔

ایک عرصے سے افغان صدر حامد کرزئی یہ کہتے چلے آئے ہیں کہ باقی ماندہ امریکی فوجی اہل کاروں پر مقامی عدالت ہی مقدمہ چلانے کی مجاز ہوگی جب کہ امریکہ اس بات پر زور دیتا آیا ہے کہ کسی جرم کی صورت میں مقدمہ امریکہ میں ہی چلنا چاہیئے۔

استثنیٰ پرسمجھوتے تک پہنچنےمیں ناکامی کے باعث ہی عراق میں امریکی فوجی تعیناتی ختم کی گئی تھی۔

متوقع طور پر امریکہ افغان بات چیت کئی ماہ تک جاری رہ سکتی ہے۔