افغان طالبان کے نئے سربراہ ملا اختر منصور نے کہا ہے کہ افغانستان میں اسلامی نظام کے نفاذ تک طالبان کا ’جہاد‘ یعنی گروپ کی کارروائیاں جاری رہیں گے۔
ہفتہ کو اپنے پہلے آڈیو پیغام میں انھوں نے اس ضمن میں طالبان رہنماؤں اور اکابرین کو یہ یقین دہانی کرواتے ہوئے اپنے حامیوں سے کہا کہ وہ طالبان کی تحریک سے متعلق افواہوں پر توجہ نہ دیں۔
سماجی رابطوں کی ایک ویب سائیٹ پر جاری اس پیغام میں ملا منصور کا کہنا تھا کہ جنگ یا امن بات چیت، یہ تمام فیصلے اسلامی قوانین کی روشنی میں کیے جائیں گے۔
طالبان نے اپنے امیر ملا محمد عمر کی موت کی تصدیق جمعرات کو کی تھی اور ان کی جگہ ملا اختر منصور کو تحریک کا نیا سربراہ مقرر کیا۔ ساتھ ہی سراج الدین حقانی کا ان کے ایک نائب کے طور پر تقرر کیا گیا۔
اس بیان کے بعد جمعہ کو بعض ذرائع ابلاغ میں نا معلوم ذرائع سے یہ خبریں آئیں کہ سراج الدین کے والد "حقانی نیٹ ورک" کے بانی جلال الدین حقانی بھی فوت ہو چکے ہیں۔
تاہم ہفتہ کو طالبان نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ جلال الدین حقانی علیل ضرور تھے لیکن اب وہ صحتیاب ہو چکے ہیں۔
ملا منصور کو تحریک کا سربراہ بنائے جانے پر ایسی خبریں بھی منظر عام پر آئیں کہ اس فیصلے پر طالبان کے بعض رہنما بشمول مرحوم سربراہ ملا عمر کے بیٹے اور بھائی متفق نہیں۔
افغان حکام کا کہنا ہے کہ ملا عمر کا انتقال 2013ء میں پاکستان کے ساحلی شہر کراچی کے ایک اسپتال میں ہوا تھا لیکن طالبان نے اپنے ایک بیان میں اپنے سربراہ کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملا عمر 2001ء کے بعد ایک دن کے لیے بھی افغانستان سے باہر نہیں گئے۔
اس ضمن میں بعض ذرائع ابلاغ میں کراچی میں واقع آغا خان اسپتال کا نام لیا جا رہا تھا لیکن اسپتال نے اپنے ایک بیان میں ان خبروں کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
افغان طالبان سے منحرف ہونے والے ایک گروپ "فدائی محاذ" نے دعویٰ کیا ہے کہ ملا عمر کو زہر دے کر ہلاک کیا گیا۔ تاہم اس کی تاحال کسی نے تصدیق نہیں کی۔
طالبان کے نئے سربراہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے حامی ہیں۔
پاکستان کی میزبانی میں گزشتہ ماہ کے اوائل میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے مابین پہلی براہ راست بات چیت ہوئی تھی اور اس کا دوسرا دور رواں ہفتے پاکستان میں ہونا تھا۔
لیکن پاکستانی حکام کے مطابق ملا عمر کی موت کی اطلاعات کے بعد طالبان رہنماؤں کی درخواست پر یہ دور موخر کر دیا گیا ہے۔
امریکہ نے بھی طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ امن عمل میں شریک رہیں کیونکہ طالبان اور کابل حکومت کے درمیان "حقیقی امن" اور مصالحت کا یہ ایک نہایت اہم موقع ہے۔