کابل میں دو خود کش حملوں میں آٹھ صحافیوں سمیت 29 افراد ہلاک ہو گئے ہیں اور بعض زخمیوں کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔
وائس آف امریکہ کے پروگرام جہاں رنگ میں میزبان قمر عباس جعفری نے افغانستان کی صورت حال کے بارے میں افغان پارلیمنٹ کے رکن انجنیئر کمال اور پاکستان میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے بریگیڈیر سعد نذیر سے بات کی۔
انجنیئر کمال نے صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک بار پھر لہولہان ہیں اور افغانستان کی تاریخ میں شاید پہلی بار صحافیوں پر اتنا بڑا حملہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد معقولیت کی اس آواز کو دبانا ہے جو صحافي ساری دنیا تک پہنچاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ طالبان اور داعش دونوں ہمیں مار رہے ہیں۔ ہم دونوں کو ایک دوسرے کا متبادل نہیں سمجھتے اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ نہ تو افغان جنگ ہے نہ کوئی اندرونی جنگ ہے ۔یہ علاقائی جنگ ہے اور دنیا کی اقوام اس جنگ کو آگے چلا رہی ہیں۔
بریگیڈیر سعد نذیر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ طالبان نے بھی اپنی کارروائیوں کا اعلان کر رکھا ہے دوسری جانب داعش بھی سرگرم عمل ہے۔ اور دونوں اپنے اپنے طور پر اپنے آپ کو منوانے کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انتخابات سے قبل ایک متوازی قوت یا پاور سینٹر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اور اب یہ ایک علاقائی گیم بنتی جا رہی ہے جس میں کسی ایک ملک یا ایک قوت کے ہاتھ میں مسئلے کا حل نہیں رہ جائے گا۔
مزید تفصیلات کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔
Your browser doesn’t support HTML5