ترکی میں پھنسے افغان تارکین وطن کو واپس لانے کا سمجھوتا

سمجھوتے کی تفصیل ایک یادداشت نامے میں درج ہے جس کا اعلان ہونا باقی ہے۔ تاہم، افغان عہدے داروں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا ہے کہ افغان حکومت یورپی یونین کی حمایت حاصل کرے گی، جس میں بحران سے نمٹنے کے لیے مالی اعانت کا حصول شامل ہے

افغان مہاجرین کو ملک واپس لانے کے لیے، جو اس وقت یونان میں پھنسے ہوئے ہیں، حکومتِ افغانستان یورپی رکن ممالک اور یورپی یونین کے ساتھ انتظامات کے لیے سمجھوتے کو آخری شکل دے رہی ہے۔

سمجھوتے کی تفصیل ایک یادداشت نامے میں درج ہے جس کا اعلان ہونا باقی ہے۔ تاہم، افغان عہدے داروں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا ہے کہ افغان حکومت یورپی یونین کی حمایت حاصل کرے گی، جس میں بحران سے نمٹنے کے لیے مالی اعانت کا حصول شامل ہے۔

حفیظ اللہ میان خیل افغان وزارت برائے مہاجرین اور وطن واپسی کے ترجمان ہیں۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ ’’ہم اپنے یورپی یونین کے ساتھیوں سے بات چیت کر رہے ہیں اور ایک مشترکہ تیکنیکی کمیٹی قائم کی گئی ہے، جس میں مختلف تنظیمں اور وزارتیں شامل ہیں، جن کا مقصد اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہے‘‘۔

بقول اُن کے، اس ضمن میں افغانستان کی کچھ شرائط اور مطالبات ہیں، جن میں واپس آنے والوں کی امداد کرنا، اور افغانستان میں سکیورٹی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا شامل ہے، جس میں کچھ صوبوں میں پیشہ ورانہ انسٹی ٹیوٹ قائم ہوں گے، تاکہ واپس آنے والوں کے لیے تربیت کا بندوبست کیا جائے۔

اِن دنوں، ہزاروں تارکین وطن یونان میں ہیں جہاں سے وہ یورپ میں داخل ہونے کے خواہشمند تھے۔ لیکن، ترکی اور یورپی یونین کے درمیان ہونے والے ایک سمجھوتے کے تحت، جس کے مطابق، حالیہ دنوں کے دوران یونان آنے والے مہاجرین کو ترکی کے حوالے کیا جائے گا۔ واپس کیے جانے والے ہر شخص کی جگہ ترکی ایک شامی مہاجر کو یورپ بھیجے گا۔

تاہم، افغان مہاجرین کی قسمت کیا رخ اختیار کرتی ہے یہ بات واضح نہیں ہے۔ یورپی حکومتوں نے فروری میں افغانوں کو معاشی تارکین وطن قرار دیا، جس کے باعث قانونی طور پر یورپ میں رہائش کے اُن کے امکانات کم ہوگئے ہیں۔ اور ترکی نے یہ نہیں کہا آیا اُنھیں اپنے ملک واپس بھیجا جائے گا۔

اس درجہ بندی کے باعث یونان میں افغان اور شامی مہاجرین کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔

افغان حکومت نے اس سے قبل اس بات پر زور دیا تھا کہ وہ یورپ سے افغانوں کی زبردستی ملک بدری کو قبول نہیں کرے گا۔