افغانستان میں اعلیٰ ترین امریکی کمانڈر جنرل نکلسن نے کہا ہے کہ افغانستان میں 16 برس سے جاری لڑائی سے عسکریت پسند اب تھک چکے ہیں اور وقت آ گیا ہے کہ طالبان امن مزاکرات کیلئے رضامند ہو جائیں۔
تاہم اُنہوں نے خبردار کیا کہ طالبان کے ساتھ امن مزاکرات کے ثمرات ظاہر ہونے میں کئی برس لگ سکتے ہیں۔
اس وقت افغانستان میں 14 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔
امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے کہا ہے کہ طالبان کی تمام تر قیادت کی طرف سے مزاکرات پر آمادہ ہونا ابھی بعید القیاس ہے۔ تاہم طالبان میں سے کچھ گروپ امن مزاکرات میں حقیقی دلچسپی ضرور رکھتے ہیں۔
بعض ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ موسم بہار کے شروع ہونے کے ساتھ عسکریت پسندوں کی کارروائیاں ایک بار پھر زور پکڑ سکتی ہیں۔ تاہم جنرل نکلسن کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس کی پیش بندی کرتے ہوئے افغانستان میں موجود امریکی افواج کیلئے دستیاب فوجی وسائل میں اضافہ کر دیا ہے۔ لیکن بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حکمت عملی سے امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے سفارتی کوششوں کو دھچکہ لگے گا۔
طالبان نے حکومت کی طرف سے مزاکرات کی دعوت کا ابھی کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ تاہم ایک بیان میں طالبان گروپ نے سابق جہادی لیڈر محمد اسماعیل کی طرف سے سابق جہادی لیڈروں سے بات چیت کے مشورے کا خیر مقدم کیا ہے۔ محمد اسماعیل ہیرات کے سابق گورنر اور سابق صدر حامد کرزئی کی حکومت میں توانائی اور پانی کے وزیر رہ چکے ہیں۔ وہ جمیعت اسلامی کے نمایاں لیڈر بھی ہیں۔
طالبان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ افغانستان میں موجود بحران کے حل کے سلسلے میں ہونے والی کوششوں کو سراہتا ہے۔ طالبان نے سابق جہادی لیڈروں سے طالبان کے کا ساتھ دینے کی اپیل کی ہے کیونکہ بقول اس کے افغانستان پر قابض فوجیں افغانستان اور افغان عوام کی خیر خواہ نہیں ہیں۔
تاہم افغان گروپ آف نیوزپیپرز کے چیئرمین اور معروف افغان تجزیہ کار ڈاکٹر حسین یاسا نے وائس آف امریکہ اُردو سروس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی رائے میں جنرل نکلسن کا بیان اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ افغانستان میں جاری طویل جنگ سے وہ خود مایوس ہو چکے ہیں اور امریکہ کسی بھی اعتبار سے عسکریت پسندوں کے ساتھ معاملات طے کر کے اس دلدل سے نکلنا چاہتا ہے۔
ڈاکٹر حسین یاسا نے کہا کہ طالبان کی طرف سے فی الحال مزاکرات کی پیشکش کا کوئی جواب نہیں آیا ہے۔ صرف طالبان کے لیڈر ذبیح المجاہد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ فی الوقت مزاکرات کی دعوت کے مضمرات سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ ڈاکٹر یاسا نے کہا کہ طالبان کے رد عمل میں فرق صرف اتنا ہے کہ اُس نے اس بار ماضی کی طرح ہاں یا ناں کہنے میں عجلت کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ طالبان اس بار فیصلہ کرنے میں کچھ وقت لینا چاہ رہے ہیں۔
ڈاکٹر یاسا نے کہا کہ پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ کے حالیہ دورہ کابل اور افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگذیکٹو عبداللہ عبداللہ سمیت افغان راہنماؤں سے ہونے والی بات چیت کے نتیجے میں کچھ مثبت اشارے ملے ہیں اور افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو کابل کے دورے کی دعوت دی ہے۔ تاہم اُنہوں نے خبردار کیا کہ جب افغانستان میں دہشت گرد کارروائیاں تھم جاتی ہیں تو افغانستان اور پاکستان کے درمیان باہمی رابطوں کو آغاز ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر بدقسمتی سے طالبان نے پھر کوئی دہشت گرد حملہ کر دیا تو دونوں ملکوں کے درمیان ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ پھر سے شروع ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں حکمران جماعت پاکستان مسلم نون کے سینئر راہنما سنیٹر عبدالقیوم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں موجودہ حکومت افغان عوام کی مکمل طور پر نہ تو نمائندگی کرتی ہے اور نہ ہی ملک میں اُس کا کوئی اختیار ہے۔ اس کے علاوہ وہ مالی بحران کا شکار ہے اور مالی وسائل کیلئے مکمل طور پر امریکہ پر انحصار کرتی ہے۔ افغان حکومت اندرون ملک سیکورٹی کیلئے بھی امریکہ پر ہی انحصار کرنے پر مجبور ہے کیونکہ افغان فوج کمزور ہے اور ابھی اُس انداز میں منظم نہیں ہو سکی جو ملک بھر میں سیکورٹی کی ذمہ داریاں نبھا سکے۔ سنیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ پاکستان افغان فوج کی تربیت میں مدد دینے اور انٹیلی جنس شیئر کرنے کیلئے تیار ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ افغانستان میں طالبان ایک غیر مرئی دشمن ہے اور جب تک طالبان کو ایک اسٹیک ہولڈر کے طور تسلیم کرتے ہوئے مزاکرات کی میز پر واپس نہیں لایا جاتا اور امریکہ افغانستان سے واپسی کیلئے کوئی جامع پروگرام کا اعلان نہیں کرتا، اُس وقت تک حالات کے بہتر ہونے کی اُمید رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔
سنیٹر قیوم نے کہا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے رہنماؤں کے درمیان بات چیت جاری رہنی چاہئیے تاکہ غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جا سکے اور افغانستان کو یہ باور کرایا جائے کہ اس ملک میں جو بھی کارروائیاں ہو رہی ہیں وہ افغانستان کے اندر ہی نورستان، ننگرہار، پکتیا اورخوست جیسے اُن علاقوں سے ہو رہی ہیں جہاں افغان حکومت کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
سنیٹر قیوم نے کہا کہ اس تناظر میں پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ کی افغان رہنماؤں سے ملاقاتیں بہت مفید رہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ہم افغان بھائیوں کے دل جیتنا چاہتے ہیں اور اُنہیں بتانا چاہتے ہیں کہ ہمارے دروازے اُن کیلئے ویسے ہی کھلے ہیں جیسے پہلے کھلے تھے۔
سنیٹر قیوم نے واضح کیا کہ پاکستان خطے میں امن کیلئے بھارت کے ساتھ بھی کھل کر بات چیت کرنا چاہتا ہے اور ماضی میں بعض اوقات امریکہ نے بھی بھارت کو مزاکرات پر راضی کرنے کے سلسلے میں مدد کی تھی۔ تاہم بھارت میں موجودہ حکومت پاکستان کے ساتھ کسی بھی طرح کے رابطوں کیلئے تیار نہیں ہے۔ لہذا مزاکرات یک طرفہ طور پر ممکن نہیں ہیں۔
افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو دورے کی دعوت کے حوالے سے پاکستان میں سوچ بچار کی جا ری ہے اور ابھی تک پاکستان نے اس دعوت کا کوئی رسمی جواب نہیں دیا ہے۔ تاہم سنیٹر قیوم کا کہنا تھا کہ یہ دعوت بہت خوش آئیند ہے اور وزیر اعظم عباسی بڑی خوشی کے ساتھ کابل جائیں گے تاکہ اعلیٰ ترین سطح پر رابطے جاری رکھے جا سکیں۔
اُدھر افغانستان میں سیکورٹی کی مخدوش حالت کے پیش نظر اس بات کا خدشہ ہے کہ ملک کے پالیمانی انتخابات کو موسم خزاں تک مؤخر کر دیا جائے۔
ڈاکٹر یاسا کہتے ہیں کہ حقیقت میں افغان حکومت میں اتنی اہلیت ہی نہیں ہے کہ وہ اتنے بڑے پیمانے پر انتخابات کی تیاریاں کر سکے۔ افغان حکومت نے صدارتی انتخاب کے ساتھ ساتھ قومی اور صوبائی سطح پر انتخابات منعقد کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ لیکن افغان حکومت سے بڑھ کر اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کا اصرار ہے کہ افغانستان میں انتخابات کے ذریعے ایک نمائیندہ حکومت وجود میں آنی چاہئیے تاکہ افغانستان میں حقیقی معنوں میں جمہوریت کو فروغ حاصل ہو سکے۔ ڈاکٹر یاسا نے کہا کہ افغانستان میں جمہوریت کا فروغ امریکہ اور افغانستان میں موجود یورپی ممالک کیلئے اس لئے ضروری ہے کیونکہ وہ اسے افغانستان میں اپنے وجود کی اخلاقی حیثیت کیلئے اسے اہم سمجھتے ہیں۔
پاکستان کے سنیٹر قیوم کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان پاکستان میں موجود 27 لاکھ کے لگ بھگ افغان مہاجرین کی واپسی کا مسئلہ بھی پاکستان کے حوالے سے اہم ہے کیونکہ افغان دہشت گرد افغان مہاجرین کی صفوں میں چھپ کر کارروائیاں کرتے ہیں۔ تاہم افغانستان کے ڈاکٹر یاسا کہتے ہیں کہ افغان حکومت میں اتنی اہلیت نہیں ہے کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں اُن کی آبادکاری کا مسئلہ حل کر سکے۔ اُنہوں نے کہا کہ حالیہ برسوں میں جن افغان مہاجرین کو بین الاقوامی اداروں کی مالی مدد سے واپس افغانستان بھیجا گیا، وہ ان اداروں سے آبادکاری کیلئے نقد رقم وصول کر کے واپس پاکستان لوٹ آتے ہیں کیونکہ محض اُن کی واپسی اور نقد مالی رقم کافی نہیں ہیں۔ اُنہیں افغانستان میں اپنے اور اپنے افراد خانہ کیلئے سیکورٹی اور روزگار کی سہولتیں بھی درکار ہیں۔ لہذا افغان مہاجرین کی واپسی کا مسئلہ مستقبل قریب میں حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔