پشتون تحفظ موومنٹ کے محسن داوڑ نے افغان صدر کے الفاظ کا شکریہ ادا کیا اور لکھا ہےکہ ان کی خواہش ہے کہ ’’ہماری اپنی ریاست ارمان لونی کے قتل کے جرم کو مانے۔ مگر اس نے ہم پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ اب اگر کوئی ہم سے ہمدردی بھی کرتا ہے تو ریاست اس کی مذمت کرتی ہے‘‘
ان ٹویٹس کے تبادلے کے بعد پاکستانی سوشل میڈیا میں ماہرین اس بات پر لے دے کر رہے ہیں آیا افغان صدر کی جانب سے ایسی ٹویٹس مداخلت تصور ہوں گی یا پاکستان کو افغان صدر کی ٹویٹس پر ناراض ہونے کے بجائے اندرونی معاملات کو درست کرنا چاہئے، تاکہ کسی کو موقع ہی نہ ملے۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے محسن داوڑ نے افغان صدر کے الفاظ کا شکریہ ادا کیا اور لکھا کہ ان کی خواہش ہے کہ ’’ہماری اپنی ریاست ارمان لونی کے قتل کے جرم کو مانے۔ مگر اس نے ہم پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ اب اگر کوئی ہم سے ہمدردی بھی کرتا ہے تو ریاست اس کی مذمت کرتی ہے‘‘۔ محسن داوڑ نے لکھا ہے کہ ’’آخر اسے کس طرح سے انسانیت کہا جائے؟‘‘
I wld like to thank @ashrafghani for his words. I wish, at the very least, our state had realized its crime of martyring Arman Loni, but instead it launched a crackdown on our grief. And now it is condemning those who offer sympathy to us? By what standard of humanity is this ok?
— Mohsin Dawar (@mjdawar) February 7, 2019
بختاور بھٹو زرداری نے شاہ محمود قریشی کی ٹویٹ کے نیچے لکھا کہ ’’کیا سوال کرنے سے ہماری حب الوطنی مجروح ہوتی ہے یا غیر قانونی حراست اور اپنے شہریوں کے قتل سے حب الوطنی مجروح ہوتی ہے؟‘‘
اس ٹویٹ کے جواب میں انسانی حقوق کی پاکستانی وزیر شیریں مزاری نے سخت تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ افغان صدر کو اپنے ملک کے لوگوں کے مسائل کے حل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے اور اپنی افواج اور نیٹو کے ساتھ مل کر سرحد پار دہشت گردوں کو گھسنے سے روکنا چاہیئے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمان نے لکھا کہ ’’پاکستان میں جمہوری قوتیں سول اور انسانی حقوق کی جنگ لڑتی آئی ہیں اور ایسا کرتی رہیں گی۔ لیکن، افغان صدر اگر چاہتے ہیں کہ عدم مداخلت اور ایک دوسرے کی مثبت حمایت کا رویہ اپنایا جائے تو انہیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے‘‘۔
صحافی، اینکر اور پشتون تحفظ موومنٹ کے حامی مبشر زیدی نے افغان صدر کو لکھا ہے کہ ’’ہمیں تقسیم کرنے کی تمہاری کوشش ناکام ہو گی۔‘‘
You%27re attempt to divide us will fail https://t.co/hXBGtMVp9s
— Mubashir Zaidi (@Xadeejournalist) February 7, 2019
سابق وزر خارجہ حنا ربانی کھر نے لکھا ہے کہ ’’اس بات کا افسوس ہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کے اندرونی معاملات پر بیان دیا‘‘۔ انھوں نے کہا ہے کہ ’’اگرچہ ہمیں اپنے معاملات کو درست کرنے کی ضرورت ہے مگر اشرف غنی کے بیان سے معاملات مزید بگڑیں گے‘‘۔
حنا ربانی کھر نے لکھا ہے کہ ’’ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ احتجاج کرنے والوں کے خلاف سخت رویہ اپنانے اور انہیں غدار کہنے سے معاملات بہتر نہیں ہوتے‘‘۔
پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے لکھا ہے کہ ’’پشتون نوجوانوں کی تکالیف پر توجہ نہ دینے سے دوسروں کو ہمارے اندرونی معاملوں پر تبصرہ کرنے کا موقع ملا۔ اگرچہ یہ مداخلت ہمیں قبول نہیں ہے، مگر انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی کسی صورت منظور نہیں۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ انسانی حقوق پر سرحدوں کا اطلاق نہیں ہوتا‘‘۔
Disregarding grievances of disgruntled Pushtun youth encouraging others to comment negatively on our internal situation. Shocking. Interference in our internal matters unacceptable; but our own contempt for human rights also unacceptable. Remember human rights transcend borders
— Farhatullah Babar (@FarhatullahB) February 7, 2019
تجزیہ کار مشرف زیدی نے اشرف غنی پر طنز کیا کہ ’’بچارے اشرف غنی افغانستان کے معاملات پر ماسکو میں ہونے والے مذاکرات میں تو انہیں کسی نے مدعو نہیں کیا اور وہ دوسرے ملک کے معاملات پر تبصرہ کر رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے لکھا کہ ’’افغان صدر کا بیان سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہے‘‘۔
جبران ناصر نے لکھا کہ ’’اگرچہ یہ درست ہے کہ ہماری حکومت کو غیر ممالک سے مداخلت پر ردعمل دینا چاہئے، مگر یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان کی حکومت ہندوستان میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر انسانی بنیادوں پر بیان دیتی رہتی ہے۔ افغان صدر کے بیان کا بہترین جواب پشتون تحفظ موومنٹ کے مسائل کو حل کرنا ہے۔ حکومت تو ابھی تک یہ ہی فیصلہ نہیں کر سکی کہ پی ٹی ایم کے کارکنوں کی گرفتاری کا حکم کس نے دیا ہے؟‘‘
Respected FM while any foreign interference must be checked our Govt including you regularly issue statements about treatment of Muslims in India on humanitarian grounds. Best response is to address grievances of PTM. Govt is yet to figure out who orders their arrest/abductions https://t.co/OXjjycHkCL
— M. Jibran Nasir (@MJibranNasir) February 7, 2019
ایک ٹویٹر صارف، شہباز ستوریانی نے لکھا ہےکہ ’’بغیر جرم بتائے 19 پشتون ریاست نے گرفتار کر رکھے ہیں۔ پشتونوں کو انکا جرم تک نہیں بتایا جا رہا۔ لیکن، ریاست کو اشرف غنی کی ٹوئٹ پر بہت غصہ آیا ہوا ہے۔ دنیا بھر میں انسان بستے ہیں، درندے نہیں اور ہر انسان کا دل انسان کے ساتھ غیر انسانی سلوک سے لرزتا ہے۔‘‘
If two sympathetic tweets by @ashrafghani offend your ultra-nationalist sensibilities more than the torture, arbitrary arrests and murder of peaceful Pakistanis by the very State that is supposed to protect them, then your patriotism, not PTM, is the biggest threat to Pakistan.
— R Kakar (@rafiullahkakar) February 7, 2019
تجزیہ نگار رفیع اللہ کاکڑ نے لکھا ہے کہ ’’جس طرح پاکستانی قوم پرست افغان صدر کی ٹویٹ پر ناراض ہو رہے ہیں، اگر اسی طرح ریاست کی جانب سے پی ٹی ایم پر مظالم پر ردعمل ظاہر کیا جاتا تو ہم آج ان حالات تک نہ پہنچتے‘‘۔