امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بین الافغان مذاکرات کا مرحلہ 100 دنوں میں مکمل ہو سکتا ہے۔ تاہم ان کے بقول افغانستان میں جنگ ختم کرنے کے لیے سیاسی تصفے کی ضرورت ہے جس پر فریقین کو مصالحت سے کام لینا ہو گا۔
افغانستان کے مقامی چینل طلوع نیوز سے بدھ کو گفتگو کرتے ہوئے خلیل زاد نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر سمجھتے ہیں کہ بین الافغان مذاکرات کا مرحلہ ایک سو دنوں کے اندر مکمل ہو سکتا ہے۔ ان کے بقول امریکہ یہ چاہتا ہے کہ یہ معاملہ افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلا کے پہلے مرحلے کے دوران حل ہو جائے، جو ان کے بقول افغانستان اور دینا کے مفاد میں ہوا۔
یادر ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں طے پانے والے معاہدے پر دستخط ہونے کے 135 دنوں کے اندر افغانستان میں تعینات امریکی فورسز کی تعداد کو 13 ہزار سے کم کر کے 8،600 پر لانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ جب کہ آئندہ 14 ماہ کے دوران امریکی فورسز کا افغانستان سے انخلا مکمل ہو جائے گا۔
تاہم امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے واضح کیا کہ آئندہ 14 ماہ کے دوران افغانستان سے امریکہ فورسز کا انخلا مشروط ہو گا۔
افغان قانون ساز کمال صافی کا کہنا ہے کہ بین الافغان مذاکرات کا مرحلہ اس صورت میں جلد مکمل ہو سکتا ہے اگر صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان صدارتی انتخابات کے نتائج سے متعلق تنازع ختم ہو جائے۔
کمال صافی کے بقول اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان سیاسی تنازع اگر ختم نہیں ہوتا ہے تو بین الافغان مذاکرات کا 100 دنوں میں مکمل ہونا ممکن نہیں ہے۔ ان کے بقول اندرونی سیاسی تنازعات کو ختم کر کے ہم پیش رفت کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بین الافغان مذاکرات کے اس مرحلے میں امریکہ کا کردار اہم ہو گا۔
بین الااقوامی امور کے ماہر ہما بقائی کا کہنا ہے کہ بین لافغان مذاکرات سے پہلے افغان حکومت اور طالبان اور دیگر اسٹیک ہولڈر کے درمیان ابھی کئی امور طے ہونا باقی ہیں۔
ہما بقائی کے بقول اگرچہ افغان فریقین کے درمیان معاملات کو طے کرانے میں امریکہ اثر و سوخ کی اہمیت ضرور ہے، تاہم لیکن اس سے پہلے تمام فریقین اگر بین الافغان مذاکرات کے لیے تیار بھی ہو جائیں کہ وہ امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے پرعزم ہیں، پھر بھی ان کے بقول، بین الافغان مذاکرات سے متعلق امور طے کرنے میں وقت درکار ہو گا۔
یاد رہے کہ بین الافغان مذاکرات سے پہلے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ ہونا باقی ہے۔ اور صدر غنی طالبان قیدیوں کی رہائی کی منظوری دے چکے ہیں، تاہم افغان صدر کے ترجمان صادق صدیق نے کہا کہ طالبان قیدیوں کی رہائی مشروط ہے۔
صادق صدیقی کے بقول 14 مارچ سے 15 سو طالبان قیدیوں کی رہائی شروع ہو گی اور ہر روز ایک سو طالبان قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔ لیکن یہ رہائی جذبہ خیر سگالی کے تحت مشروط ہو گی۔
ان کے بقول طالبان قیدیوں کی رہائی کے پہلے، دوسرے اور تیسرے روز اگر تشدد جاری رہا تو افغان حکومت قیدیوں کی رہائی روک دے گی۔ لیکن ان کے بقول وہ اس بات کا اعادہ کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارا بڑا مقصد افغانستان میں جنگ کا خاتمہ اور امن عمل کامیاب کرنا ہے، جس پر افغان حکومت امریکہ کے ذریعے پیش رفت کر رہی ہے۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ امن عمل کامیاب ہو گا۔ لیکن اگر یہ ناکام ہوتا ہے، تو ان کے بقول اس کی ذمہ داری طالبان پر ہو گی۔
ادھر طالبان افغان حکومت کی طرف طالبان قیدیوں کی مشروط رہائی کر مسترد کرتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ یہ اقدام امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے معاہدہے کی خلاف ورزی ہے۔ طالبان ترجمان سہیل شاہین نے وائس امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ طالبان معاہدے میں یہ واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ بین الافغان مذاکرات سے پہلے 5 ہزار طالبان قیدیوں کو غیر مشروط رہا کیا جائے گا۔ اس کے بدلے طالبان بھی اپنی قید میں موجود ایک ہزار افغان حکومت کے قیدیوں کو رہا کریں گے۔