افغانستان میں سلامتی افواج نے جنوب میں واقع ایک اہم صوبائی دارالحکومت کے چند علاقوں سے طالبان کو نکال باہر کرنے اور مخالفین کو بھاری جانی نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا ہے، ایسے میں جب تنازع کے شکار دیگر صوبوں میں باغیوں کی مخاصمانہ کارروائیاں رُک گئی ہیں۔
باغی گروپ نے دو ہفتے قبل صوبہ ہیلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ میں ایک سنگین حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں وہ قریبی محصور شہر کے کچھ حصوں میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
جھڑپوں کے دوران درجنوں افغان فوجی ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہوئے، جس کے بعد سرکاری افواج کی حمایت میں امریکی فوج نے فضائی کارروائیاں کیں۔
صوبائی گورنر نے اتوار کو 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ سلامتی افواج نے بھاری توب خانے اور فضائی کارروائی کی مدد سے طالبان کے زیر قبضہ علاقوں کو واگزار کرا لیا ہے۔
حیات اللہ حیات نے دعویٰ کیا کہ اس کارروائی میں 88 طالبان عسکریت پسند ہلاک ہوئے جن میں غیر ملکی بھی شامل ہیں، جب کہ تقریباً 90 زخمی ہوئے۔
گورنر نے مزید کہا کہ ''خود کش حملوں کے لیے دھماکہ خیز مواد سے بھری کئی موٹر گاڑیاں بھی تباہ کر دی گئی ہیں''۔
سکیورٹی سے وابستہ اہل کاروں کا کہنا ہے کہ علاقے میں وقفے وقفے سے جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
طالبان کا حملہ
چند صوبائی اہل کاروں نے مقامی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ لشکر گاہ میں طالبان کے حملے کے نتیجے میں پیر کے روز سے اب تک افغان افواج کے 100 سے زائد اہل کار ہلاک ہوچکے ہیں، جب کہ مزید درجنوں افراد لاپتا ہیں۔ افغان وزارتِ دفاع کے حکام نے اِن اعداد و شمار کو غلط قرار دیا ہے۔ تاہم، اُنھوں نے ہلاکتوں کی تعداد جاری کرنے سے انکار کیا ہے۔
حکومت کو ہیلمند کے صرف 14 اضلاع پر مکمل کنٹرول حاصل ہے، جو رقبے میں ملک کے 34 افغان صوبوں کے علاقوں سے بڑے ہیں۔
طالبان کے ایک ترجمان نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کے لڑاکوں نے اپنے محاذوں سے پسپائی اختیار نہیں کی، جب کہ وہ لشکر گاہ میں مزید پیش قدمی کر رہے ہیں۔
امریکی قیادت والی غیر ملکی افواج کے کمانڈر، جنرل جان نکلسن نے ہفتے کے روز کہا ہے کہ لڑائی کے موسم ختم ہونے سے قبل، طالبان کی یہ کوشش ہوگی کہ افغان صوبائی دارالحکومت پر قبضہ جمانے کی کوشش جاری رکھی جائے۔
مغربی صوبہ فرح کے دورے کے دوران جنرل نے کہا کہ ''جب سے اُنھوں نے اپریل میں اپنی کارروائی کا آغاز کیا ہے، اُنھوں نے اب تک اپنے کسی ہدف کو حاصل نہیں کیا''۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ لشکر گاہ، اور جنوب میں واقع صوبہ ارزگان کے دارالحکومت، ترین کوٹ میں حملے جاری ہیں؛ جب کہ باغیوں نے قندوز کےکلیدی شمالی شہر کے تمام حصوں میں اپنی سرکش کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔
نکلسن نے عہد کیا کہ ''دراصل وہ سال کے اختتام سے پہلے شدید کوششیں کر رہے ہیں کہ کسی طرح وہ شہر پر قابض ہوجائیں۔ تاہم، اُن کی یہ کوشش ناکام ہوگی چونکہ ہمیں یہ موقع میسر آ رہا ہے کہ ہم اُنھیں اِن شہروں کے گرد و نواح میں بڑی تعداد میں ٹھکانے لگا سکیں، اور یوں، افغانستان کے عوام کو یہ یقین دہانی ہوسکے کہ ہم اُن کے ساتھ کھڑے ہیں''۔
ادھر اتوار کے روز صوبہ فریاب سے شدید لڑائی کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ لیکن، مبصرین نے توجہ دلائی ہے کہ طالبان کے حملوں میں فوری کمی آچکی ہے، خاص طور پر جنوبی اور جنوب مشرقی صوبوں میں، جن کے بارے میں عام خیال ہے کہ یہ اُن کے گڑھ ہیں۔ سرد موسم کے آنے اور افغان افواج کے ہاتھوں، جس میں اُنھیں امریکی فضائی کارروائی کی مدد حاصل ہے، طالبان لڑاکوں کو پہنچنے والا بھاری جانی نقصان وہ حقائق ہیں جن کے باعث مخاصمانہ کارروائیوں میں کمی آنے کی اطلاعات ہیں۔