افغان حکام نے کہا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے تحت رہائی پانے والے 600 جنگجوؤں کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا ہے۔
افغانستان کی قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب نے اتوار کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ رہائی پانے والے طالبان جنگجو ایک مرتبہ پھر میدان جنگ میں آ چکے ہیں اور وہ حکومتی فورسز اور عام شہریوں کو نشانہ بنانے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری 2020 میں ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت افغان حکومت نے طالبان کے پانچ ہزار سے زیادہ قیدی رہا کیے تھے جس کے بدلے طالبان نے بھی اغوا کیے گئے ایک ہزار افغان سیکیورٹی اہلکاروں کو چھوڑا تھا۔
قیدیوں کے تبادلے کے بعد طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں کے درمیان پہلی مرتبہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بین الافغان امن مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔
حمداللہ محب کے بقول قیدیوں کا تبادلہ امن عمل کی کوششوں میں مددگار ثابت نہیں ہوا۔ اس لیے افغان حکومت طالبان کے مزید قیدیوں کو رہا نہیں کرے گی۔
SEE ALSO: ٹارگٹ کلنگ میں ملوث طالبان جنگجوؤں کو پھانسی دینا ہی مسئلے کا حل ہے: افغان نائب صدرانہوں نے کہا کہ طالبان کے دوبارہ گرفتار کیے گئے جنگجوؤں کو وعدہ خلافی پر گرفتار کیا گیا ہے۔ ان کے بقول قیدیوں نے یقین دہائی کرائی تھی کہ وہ دوبارہ طالبان کے ساتھ لڑائی میں شامل نہیں ہوں گے۔
افغان قومی سلامتی کے مشیر کا مزید کہنا تھا کہ خفیہ اداروں نے اپنی رپورٹس میں بتایا ہے کہ رہائی پانے والے طالبان کے دیگر قیدی کار بم حملوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ طالبان ملک بھر میں جنگ بندی اور تشدد میں کمی کے اپنے وعدے کی پاسداری میں ناکام ہو چکے ہیں جب کہ جنگجوؤں نے تشدد کو بڑھاوا دیتے ہوئے افغان حکام، صحافیوں اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا "ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں طالبان نے جن شرائط پر آمادگی کا اظہار کیا تھا اس پر مکمل عمل درآمد کیا جائے اور ہم ان شرائط کا نفاذ چاہتے ہیں۔"
دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے رہائی پانے والے جنگجوؤں کی دوبارہ لڑائی میں شمولیت سے متعلق افغان حکومت کے الزامات کی تردید کی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
طالبان ترجمان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ کابل حکومت نے رہائی پانے والے 40 افراد کو اُن کے گھروں پر چھاپہ مار کر یا تو گرفتار کیا ہے یا انہیں قتل کر دیا ہے۔
اُن کے بقول جیل سے رہائی پانے والے طالبان کے بعض حامی مختلف اسپتالوں میں زیرِ علاج تھے جہاں سے اُنہیں دوبارہ حراست میں لیا گیا۔
طالبان کی جانب سے مسلسل الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ افغان سیکیورٹی فورسز رہائی پانے والے قیدیوں کو یا تو قتل کر رہی ہے یا انہیں دوبارہ گرفتار کر کے امریکہ کی جانب سے شروع کیے جانے والے امن عمل کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
یاد رہے کہ افغان امن معاہدے کے تحت مئی 2021 تک افغانستان سے امریکہ اور نیٹو فورسز کا مکمل انخلا ہونا ہے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مذکورہ معاہدے کا دفاع کرتے رہے ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ 'ناختم ہونے والی امریکی جنگ' کو ختم کرنے کے لیے معاون ثابت ہو گا۔
ادھر امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے طالبان سے طے پانے والے معاہدے پر نظر ثانی کا عندیہ دیا ہے۔
SEE ALSO: امریکہ کی جانب سے دوحہ معاہدے پر نظرِ ثانی کا عندیہ، افغان رہنماؤں کا خیر مقدمیاد رہے کہ انتخابی مہم کے دوران صدر بائیڈن مذکورہ معاہدے کی حمایت کرتے رہے ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی محدود تعداد کی موجودگی امن کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوین نے اپنے افغان ہم منصب حمد اللہ محب کو جمعے کو فون کر کے افغان امن عمل میں بھرپور تعاون کی یقین دہائی کرائی تھی۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق سلیوین نے واضح کیا کہ نئی امریکی انتظامیہ طالبان اور امریکہ کے درمیان فروری 2020 کے معاہدے پر نظرثانی کرے گی۔
دوسری جانب طالبان کی سیاسی امور کے ترجمان محمد نعیم نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ امن معاہدے کی پاسداری کرے۔ ان کے بقول یہ ہر کسی کے مفاد میں ہے کہ معاہدے پر من و عن عمل درآمد کیا جائے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "ہم امن معاہدے کی پاسداری کا اعادہ کرتے ہیں اور دوسری جانب سے بھی ایسا کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔"