افغانستان کے وزیرِ داخلہ نے خبردار کیا ہے کہ طالبان کے دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے ساتھ تعلقات ابھی بھی برقرار ہیں اور ان کے جنگ سے دو چار ملک سے امریکی افواج کے جلد بازی میں کیے گئے انخلا سے دہشت گردی کے خلاف عالمی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو ہفتے کو دیے جانے والے انٹرویو میں مسعود اندرابی کا کہنا تھا کہ افغان سیکیورٹی فورسز نے امریکی اشتراک سے افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروہوں کو اب تک قابو میں کر رکھا ہے جن میں دہشت گرد تنظیم 'داعش' سے منسلک گروہ بھی شامل ہیں۔
وزارتِ داخلہ میں دیے گئے انٹرویو کے دوران مسعود اندرابی کا مزید کہنا تھا کہ امریکی افواج کے جلد بازی میں انخلا سے یقینی طور پر دہشت گردوں سے دنیا کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
افغان وزیرِ داخلہ کی طرف سے یہ انتباہ ایسے وقت میں کیا ہے کہ جب امریکہ، سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں طالبان کے ساتھ گزشتہ برس کیے گئے معاہدے پر نظرِ ثانی کر رہا ہے جس کے مطابق امریکہ، افغانستان میں تعینات اپنی 2500 فوجی اہلکاروں کا رواں سال یکم مئی تک انخلا کا پابند ہے۔
مذکورہ معاہدے کے مطابق بدلے میں طالبان بھی القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہوں سے تعلقات ختم کرنے کے پابند ہوں گے۔
امریکی حکام کا اس بارے میں تفصیلات بتائے بغیر کہنا تھا کہ اس ضمن میں کچھ ہیش رفت ضرور ہوئی ہے تاہم ان کے بقول مزید پیش رفت ہونا باقی ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی معاہدے پر نظرِ ثانی سے اب تک کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔
تاہم امریکی وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن، جو افغان حکومت اور طالبان کے درمیان تعطل کے شکار امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے کوشاں ہیں، نے افغان صدر اشرف غنی کو خبردار کیا ہے کہ اس معاملے میں تمام آپشنز ابھی بھی موجود ہیں اور یہ کہ افغان حکومت کو اپنے ملک میں امن کے لیے کوششوں میں تیزی لانا چاہیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
مسعود اندرابی نے امریکی وزیرِ خارجہ کی گزشتہ ہفتے کی گئی اس پیش گوئی کو چیلنج کیا کہ امریکی افواج کے انخلا سے طالبان مزید علاقوں پر قابض ہونے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ افغان سیکیورٹی فورسز بڑے علاقے پر کنٹرول برقرار رکھ سکتی ہیں۔ تاہم ان کے بقول دور دراز کی چوکیوں پر کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے انہیں فضائی مدد درکار ہو گی۔
مسعود اندرابی کا کہنا تھا کہ افغان سیکیورٹی فورسز دارالحکومت، شہروں اور ان علاقوں کو جو اس وقت ان کے کنٹرول میں ہیں، ان کے مکمل دفاع کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
ان کے بقول افغان سیکیورٹی فورسز نے رواں سال طالبان کو ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
طالبان نے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے اب تک امریکی اور نیٹو فورسز پر حملے نہیں کیے۔ تاہم افغان سیکیورٹی فورسز کو کچھ خطرناک حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
جب سے امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ طے پایا ہے پر تشدد کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ غربت اور بیروز گاریکے باعث جرائم میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
سن 2001 میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان کو ملنے والی اربوں ڈالرز کی بین الاقوامی امداد کے باوجود افغانستان کی تین کروڑ 70 لاکھ آبادی میں سے 72 فی صد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں جب کہ ان کی فی کس یومیہ آمدنی ایک اعشاریہ 90 ڈالر سے بھی کم ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
افغانستان میں بے روزگاری کی شرح 30 فی صد تک جا پہنچی ہے۔
افغان دارالحکومت کابل کے شہری اسٹریٹ کرائمز قتل کی وارداتوں اور بم حملوں سے خوف زدہ رہتے ہیں اور ناقص سیکیورٹی کی شکایات کرتے ہیں۔
مسعود اندرابی کا شہریوں سے ہمدردی کرتے ہوئے کہنا تھا کہ افغانستان کی 70 فی صد پولیس طالبان کے خلاف لڑ رہی ہے جس کے باعث امن و امان قیام کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔
ان کے بقول ہر روز پولیس کو پورے ملک میں 100 سے زائد طالبان کے حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انٹرویو میں اندرابی کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ کی گئی 400 سے زائد گرفتاریوں کی وجہ سے پر تشدد کارروائیوں کو کم کرنے میں مدد ملی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کو بین الاقوامی برادری جس میں امریکہ اور نیٹو بھی شامل ہیں،سے جنگ اور امن کے دوران ا بھی مدد درکار ہو گی۔