پاکستان اور افغانستان کے درمیان پشاور میں تجارتی مارکیٹ کی ملکیت کا تنازعہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس معاملے پر پاکستانی دفتر خارجہ نے افغان دفتر خارجہ کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’افغانستان کی طرف سے پاکستان کے عدالتی نظام سے متعلق بیان درست نہیں‘‘۔
پاکستان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’پشاور کی مارکیٹ کا معاملہ توڑ مروڑ کر، سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا‘‘۔
بیان کے مطابق، افغان دفتر خارجہ کی جانب سے واقعے کو ’’گمراہ کن انداز میں پیش کرنا قابل افسوس ہے‘‘؛ اور یہ کہ ’’درحقیقت پشاور مارکیٹ کا معاملہ ایک پاکستانی شہری اور ایک بینک کے درمیان تھا۔ 1998ء میں معاملے سے متعلق شہری کے حق میں فیصلہ ہوا۔ افغان فریقین کی جانب سے اس حوالے سے برعکس اقدامات پر مقامی انتظامیہ نے ایکشن لیا‘‘۔
ڈاکٹر فیصل نے کہا ہے کہ ’’افغان حکومت کی جانب سے احتجاجاً پشاور قونصلیٹ کی بندش قابل افسوس ہے‘‘، اور یہ کہ ’’پاکستان امید کرتا ہے کہ افغان حکومت اس فیصلے پر نظر ثانی کرے گی اور یہ بھی امید کرتے ہیں کہ نجی کیس کے باعث 2 برادر ممالک کے تعلقات خراب نہیں ہوں گے‘‘۔
پشاور مارکیٹ کا تناعہ کیا ہے؟
پشاور میں جناح پارک کے بالمقابل 21 کنال سے زیادہ اراضی پر تعمیر شدہ اس تجارتی مرکز پر تنازع 1989 میں سامنے آیا تھا، جب بھارت اور کشمیر سے 1947 میں بے دخل ہونے والے لوگوں کو آباد کرنے کے لیے 1958 میں بنائے گئے ایک قانون کے تحت یہ جائیداد ایک مقامی شخص کو الاٹ کی گئی تھی۔
اس قسم کی جائیدادوں کو الاٹ کرنے سے قبل سابق قانونی مالکان، دعوے داروں اور ملکیت رکھنے والے افراد کو باقاعدہ طور پر نوٹسز جاری کیے گئے تھے۔
افغان سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ اُس وقت ان کی حکومت یا سفارت خانے کو کسی قسم کا نوٹس نہیں دیا گیا تھا۔
اسی الاٹمنٹ کے تحت بعد میں عدالت نے بھی افغان حکومت کے مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے مقامی شخص کے حق میں فیصلہ سنایا تھا اور اس فیصلے کے مطابق اب سول انتظامیہ نے پولیس فورس کی مدد سے تجارتی مارکیٹ کا قبضہ واگزار کرنے کا دعوٰی کیا ہے۔
افغان حکام کا مؤقف
پشاور کی افغان مارکیٹ کے معاملہ پر پشاور میں تعینات افغان قونصل جنرل ہاشم خان نے جمعہ کو ایک ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں افغانستان کے سفیر شکر اللہ عاطف مشعل نے مارکیٹ پر افغان پرچم لگواتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اسے دوبارہ ہٹایا گیا تو پشاور کے قونصل خانے کو بند کر دیا جائے گا۔
افغانستان کا دعویٰ ہے کہ پشاور کی افغان مارکیٹ قیام پاکستان سے قبل افغان حکومت کی ملکیت تھی جب کہ پاکستان کی پشاور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ اسے ایک شخص کے دعوے پر اس کی ملکیت قرار دے چکی ہیں۔
آٹھ اور نو اکتوبر کی درمیانی شب پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے عدالتی احکامات کے تحت پولیس نفری کی مدد سے افغان تجارتی مرکز کا قبضہ واگزار کرایا تھا اور کارروائی کے دوران عمارت پر لگے ہوئے افغانستان کے جھنڈے کو بھی اتار کر پاکستان کا قومی جھنڈا لگوا دیا تھا۔
افغان سفارت خانے کا کہنا ہے کہ مارکیٹ پر چھاپہ مارنے اور افغانستان کا پرچم دوسری بار ہٹائے جانے سے قبل پولیس نے پاکستان میں افغانستان کے سفارتی مشن کو آگاہ نہیں کیا۔
اس معاملہ کی وجہ سے پاکستانی اور افغان عوام کے درمیان سوشل میڈیا پر بھی کشیدگی دیکھنے میں آ رہی ہے، اور دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی علاقوں میں ماضی میں کئی مرتبہ تلخ واقعات پیش آتے رہے ہیں جن کی وجہ سے بعض اوقات جانی نقصان بھی ہوا۔
لیکن، شہری علاقے میں ہونے والا یہ پہلا واقعہ ہے جس کے بعد پہلی مرتبہ پشاور میں افغان قونصلیٹ کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا ہے، جبکہ پاکستان کی طرف سے بھی موقف میں تاحال کوئی نرمی نہیں دکھائی گئی۔