دوستم کو فوجی عہدہ دینے پر صدر کرزئی تنقید کی زد میں

عبدالرشید دوستم (فائل فوٹو)

دوستم کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات ہیں اور ایک ایسے شخص کو اپنا چیف آف سٹاف تعینات کرناانصاف اور طالبان کے ساتھ امن بات چیت شروع کرنے کی کوششوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے

افغانستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک مقامی تنظیم نے ملک کے ازبک جنگجو کمانڈر عبدالرشید دوستم کو اعلیٰ فوجی عہدہ دینے پر صدر حامد کرزئی پر کڑی تنقید کی ہے۔

افغانستان رائٹس مانیٹر (ARM) نے کہا ہے کہ دوستم کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات ہیں اور ایک ایسے شخص کو اپنا چیف آف سٹاف تعینات کرناانصاف اور طالبان کے ساتھ امن بات چیت شروع کرنے کی کوششوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔

تنظیم کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں الزام لگایا گیا ہے کہ صدر کرزئی نے رشید دوستم کو اس عہدے سے نواز کر نامور جنگجو کمانڈروں کو قانونی تحفظ فر اہم کیا ہے اور اُن کے جرائم پر پردہ ڈالنے کی اپنی پالیسی کو جاری رکھا ہے۔ ادارے کے ڈائریکٹر اجمل صمدی کے بقول ایک ایسی حکومت کی موجودگی میں جو انصاف دینے کے اپنے وعدوں کو پورا نہیں کرسکتی افغانستان میں خوشحالی اور دیرپا امن واستحکام قائم نہیں ہو سکتا۔

رشید دوستم پہلے بھی 2008 ء تک اسی عہدے پر فائز تھے تاہم اُسی سال ان کے جنگجوؤں اور ایک مخالف کمانڈر کے ساتھیوں کے درمیان جھڑپوں کے بعد حکومت نے انھیں گھر میں نظر بند کردیا تھا اور پھر انھوں نے ترکی میں خود ساختہ جلاوطنی اپنا لی۔ گزشتہ سال افغانستان کے صدارتی انتخاب سے چند روز پہلے دوستم وطن واپس آگئے جہاں انھوں نے اپنے حامیوں کو انتخابات میں صدر کرزئی کی حمایت کرنے کو کہا۔

امریکہ اور اقوام متحدہ نے ان کی افغانستان واپسی پر سخت تشویش کا اظہار کیا تھا۔ کابل میں سفارتی ذرائع کا ماننا ہے کہ صدارتی انتخاب میں کرزئی کی حمایت کی پالیسی دراصل دوستم کو سرکاری عہدہ دینے کے بارے میں ایک خفیہ معاہدے کا نتیجہ تھا۔ لیکن دوستم نے ایسے کسی بھی معاہدے سے انکار کیا۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد حامد کرزئی نے اپنی مجوزہ کابینہ کی جو دو فہرستیں منظوری کے لیے پارلیمان کو بھیجی تھیں اُن میں رشید دوستم کی پارٹی سے تعلق رکھنے والےافراد کے نام بھی شامل تھے لیکن قانون ساز اسمبلی نے دونوں مرتبہ ان ناموں کو مسترد کردیا۔ لیکن اس کے باوجود صدر کرزئی نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے دوستم کے مسترد کردہ حامیوں کو پہلے نائب وزرا کے عہدوں پر تعینات کیا اور بعد میں اُنھیں قائم مقام وزرا کے عہدوں پر ترقی دے دی۔

اس افغان کمانڈر کی جنبشِ ملی پارٹی کے ایک عہدے دار نے جنوری میں یہ انکشاف کیا تھا کہ ان کی جماعت نے صدر کرزئی کے لیے سات لاکھ ووٹ اکٹھے کیے تھے جس کے بدلے افغان کابینہ میں انھیں کئی نشتوں کی پیشکش کی گئی تھی۔


انسانی حقوق کی تنظیموں کا الزام ہے کہ 2001ء میں امریکہ کی قیادت میں بین الاقوامی افواج کی طالبان حکومت کے خلاف کارروائی کے بعد دوستم کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے شمالی افغانستان میں دو ہزار سے زائد طالبان نے ہتھیار پھینک دیے تھے جنھیں بعد میں سامان لے جانے والے کنٹینرز میں بند کر دیا گیا جہا ں دم گھٹنے سے یہ سب قیدی ہلاک ہو گئے تھے۔

اس کے علاوہ مزار شریف میں دوستم اور امریکی افواج کے مشترکہ کنٹرول والے ایک تاریخی قید خانے میں موجود تین سو طالبان قیدیوں کو بھی اس وقت ہلاک کردیا گیا جب انھوں نے قیدخانے کے اندر بغاوت کر دی ۔

امریکی صدر باراک اوباما نے گزشتہ سال جولائی میں اپنی قومی سلامتی کی ٹیم کو افغانستان میں جنگی قیدیوں کی ان مبینہ ہلاکتوں کی تحقیقات کی ہدایت کی تھی۔ تاہم رشید دوستم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور طالبان قیدیوں کو ہلاک کرنے کے الزامات کو مسترد کرتے رہے ہیں۔